بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سواری کا نام براق یا قصواء رکھنا کیسا ہے؟


سوال

سواری نام براق یا قصواء رکھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ چوں کہ مسلمانوں کے لیے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام یعنی محمد نام رکھنا درست ہے، تو ان کی سواری کا نام رکھنا تو بطریقِ اولیٰ درست ہونا چاہیے۔

۱۔ بُرَّاق انبیاء کرام علیہم السلام کی سواری کا نام ہے، اسی سواری پر سوار ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس ، پھر وہاں سے آسمان تک حضرت جبرئیل کے ساتھ تشریف لے گئے تھے، اس کو براق کہنے کی وجہ اس کا چمکتا ہوا رنگ ہے یا اس کی بجلی جیسی سرعت ہے، سواری کا نام نیک نیتی کے طور پر براق رکھنا درست ہے۔

۲۔ قصواء اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس کے کان کا کنارہ ذرا سا کٹا ہوا ہو، چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام قصویٰ تھا تو نیک نیتی کے طور پر اونٹنی کا یہ نام رکھا جاسکتا ہے۔

تاہم ان ناموں کے رکھنے کی وجہ سے سواریوں کو  وہ تقدس حاصل نہیں ہوگا، جو اصل براق اور قصوی کا تھا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"سمّوا بإسمي، ولا تكنوا بكنيتي."

(صحيح البخاري، كتاب البيوع، باب ما ذكر في الأسواق، ج: 3، ص: 66، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ:"یعنی میرے نام پر نام رکھو، البتہ میری کنیت اختیار نہ کرو۔ "

لسان العرب میں ہے:

"والبراق: دابة يركبها الأنبياء، عليهم السلام، مشتقة من البرق، وقيل: ‌البراق فرس جبريل، صلى الله على نبينا وعليه وسلم. الجوهري: ‌البراق اسم دابة ركبها سيدنا رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ليلة المعراج، وذكر في الحديث قال: وهو الدابة التي ركبها ليلة الإسراء؛ سمي بذلك لنصوع لونه وشدة بريقه، وقيل: لسرعة حركته شبهه فيها بالبرق. وشيء براق: ذو بريق."

(ق، حرف الباء، ج: 10، ص: 15، ط: دار صادر بيروت)

وفيه أيضا:

"وكان لرسول الله صلى الله عليه وسلم ناقة تسمى قصواء ولم تكن مقطوعة الأذن. وفي الحديث: أنه خطب على ناقته القصواء، وهو لقب ناقة سيدنا رسول الله، صلى الله عليه وسلم. قال: والقصواء التي قطع طرف أذنها."

(و - ي، فصل القاف، ج: 15، ص: 185، ط: دار صادر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں