بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سواری کا گانا بجانے کا مطالبہ کرنا


سوال

میں گاڑی رینٹ پر چلاتاہوں،  جس میں سوار  گانے سننے کا مطالبہ کرتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  موسیقی، گانا بجانا اور سننا  شریعت میں گناہ اور   حرام ہے اور  گناہ جس طرح خود کرنا  منع ہے، اسی طرح کسی اور کے  لیے گناہ کا ذریعہ اور آلہ کار  بننا  یا گناہ میں کسی قسم کی معاونت  کرنابھی گناہ ہے ؛  لہٰذا آپ  کے  لیے سواری کے مطالبے  پر  اپنی گاڑی میں گانا لگانا  جائز نہیں ہوگا۔

 ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ﴾ [ لقمان : 6 ]

ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے  بھی ہیں جو ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تاکہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گم راہ کرے اور اس کی ہنسی اڑائے ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ  "لهو الحدیث"سے مراد گانا ہے، یہی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر رضی اللہ عنہم ، حضرت  عکرمہ، سعید بن جبیر، مجاہد ، مکحول ، حسن بصری اورعمرو بن شعیب  رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر حضرات سے منقول ہے۔

حضرت  جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے ارشاد فرمایا : گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔

حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں ایک جگہ حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ایک طرف ہوکر چلنے لگے، دور ہوجانے کے بعد مجھ سے کہا:اے نافع کیا تم کچھ  سن رہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کان سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جارہا تھا،نبی کریم ﷺ نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا جیسا میں نے کیا۔

ان دلائل سے یہ بات واضح ہوئی کہ موسیقی   سننا یا سنانا ناجائز اور گناہ ہے۔

مشكاة المصابيح   (3 / 42):

"وعن  جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع " . رواه البيهقي في " شعب الإيمان."

{و تعاونوا على البر و التقوى و لاتعاونوا على الاثم و العدوان} [سورة المآئدة :۲]

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"{ولا تعاونوا على الاثم والعدوان} نهى عن معاونة غیرنا علی معاصی الله تعالیٰ". (ج:۲ص:۴۲۹ط:قدیمی)

     تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"یأمر تعالیٰ عباده المؤمنین بالمعاونة علی فعل الخیرات و هو البر، و ترك المنکرات وهو التقوی، وینهاهم من التناصرعلی الباطل والتعاون علی المآثم والمحارم".

(2/10 ط: دارالفیحاء)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں