بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سواری دینے کی اجرت لینا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک ڈرائیور نے اسٹینڈ پر گاڑی کھڑی کی تھی اور وہ پشاور سواری لے جاتا ہے ،تو ایک سواری سے 500روپے کرایہ پر بات طے ہوئی اور وہ اسے لے جانے والا  تھا کہ اس دوران ایک دوسرے ڈرائیور نے آکر کہا کہ یہ سواری مجھے دے، اس کو میں لے جاؤں گا اور آپ کو میں 200روپے دے دوں گا۔ تو شریعت کی رو سے یہ کونسا معاملہ ہے؟اور جائز ہے یا ناجائز؟حوالہ جات سمیت جواب ارسال فرمائیں۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں جو ڈرائیور پہلے سواریوں کو لے جا رہا تھا،تو چونکہ اس نے دوسرے ڈرائیور کا سواری فراہم کرنے میں کوئی قابل ذکرعمل نہیں کیا ہے، لہٰذا اس کے لیے اس پر دو سو روپے بطور کمیشن لینا   شرعاً درست نہیں ہے۔

 اعلاء السنن میں ہے:

"وشرط جوازها عند الجمهور أن تكون الأجرة معلومة ... قلت: والحاصل أن أجرة السمسار ضربان إجارة ،وجعالة، فالأول يكون مدة معلومة يجتهد فيها للبيع،

(كتاب الإجارة، باب أجرة السمسرة. ٦ / ٢٠٧. ط: إدارة القرآن وعلوم الإسلامية)

مسند الإمام أحمد بن حنبل میں ہے:

١٧٢٦٥ -" حدثنا يزيد، حدثنا المسعودي، عن وائل أبي بكر، عن عباية بن رفاعة بن رافع بن خديج، عن جده رافع بن خديج، قال: قيل: يا رسول الله، أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور. "

(مسند الشاميين، حديث رافع بن خديج، ٢٨ / ٥٠٢، ط: مؤسسة الرسالة)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "(وعن رافع بن خديج قال: قيل: يا رسول الله أي الكسب) : أي أنواعه (أطيب) ؟ أي أحل وأفضل (قال: " عمل الرجل بيده) ، أي من زراعة أو تجارة أو كتابة أو صناعة (وكل بيع مبرور) ... والمراد بالمبرور أن يكون سالما من غش وخيانة، أو مقبولا في الشرع بأن لا يكون فاسدا ولا خبيثا أي رديا، أو مقبولا عند الله بأن يكون مثابا به".

(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ٥ / ١٩٠٤، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں