بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوارہ اور ونی کی رسم کے طور پر نکاح کا حکم


سوال

1۔میرے بڑے بھائی کے نکاح میں میرے چھوٹے تایا کی بیٹی تھی2010 میں بھائی نے دوسری شادی کرلی جس کی وجہ سے گھریلو ناچاقیاں بڑھ گئیں ، کسی وجہ سے تکرار ہونے پر تایا کی بیٹی نے خود کشی کرلی ۔

تایا اور تایا زاد بھائیوں نے ہم پر قتل کا دعوی کردیا ، اس کے بعد گاوں میں جرگے کا انعقاد ہوا، میرے والد صاحب نے جرگے سے کہا کہ اگر سوارہ یا ونی(بدلے میں لڑکی دینا) پر صلح ہونی ہے تو میں اس پر راضی نہیں ہوں اور نا جرگے میں بیٹھنے کے لئے تیار ہوں البتہ زمین یا رقم کے بدلے میں صلح ہوتی ہے تو ٹھیک ہے ، جرگے والوں نے میرے والد صاحب کو یہ باور کرایا کہ ہم پیسوں کے بدلے میں یا زمین کے بدلے میں صلح کریں گے آپ صرف جرگے میں بیٹھ جائیں ،جب جرگہ شروع ہوا تو معاملہ بالکل الٹ تھا ہمارے علاقے کے معززین نے کچھ تمہیدات باندھیں اور اس کے بعد علاقے کے ایک مولوی صاحب کو نکاح کرانے کا کہا میرے والد نے انکار کیا تو ایجاب قبول میرے بڑے تایا مرحوم سے کروایا گیا حالانکہ میرے والد رضامند نہیں تھے،جرگے کے بعد میرے والد احتجاجا وہاں سے چلے گئے،میری بہن کی عمر اس وقت تین سال تھی ، جب وہ کچھ سمجھ بوجھ کے قابل ہوئی تو اس نے انکار کرنا شروع کردیا اور آج تک انکار کررہی ہے 

اب پوچھنا یہ ہیکہ میرے والد کی موجودگی میں میرے بڑے تایا مرحوم کا ایجاب قبول کرنا صحیح تھا جبکہ میرے والد رضامند نہیں تھے یہ نکاح منعقد ہوا یا نہیں؟

2۔نیز سوارہ یا ونی کا عمل شرعا جائز ہے یا ناجائز؟جبکہ وفاقی شرعی عدالت اس کے غیر اسلامی اور غیر شرعی ہونے کا فیصلہ دے چکی ہے۔

 3۔سوارہ یا ونی کا عمل جب  جاہلانہ اور ظالمانہ رسم ہے ، حرام اور ناجائز بھی ہے تو اس رسم کے دوران کیے گئے نکاح کا کیا حکم ہوگا وہ جائز ہوگا یا ناجائز ؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں بچی کے والد کی موجودگی میں، بچی کے والد کے انکار کے باوجود  بچی  کے تایا کا نکاح کرانا شرعاً جائز نہیں تھا ،ایسا نکاح شرعا منعقد ہی نہیں ہوا۔

2۔کسی بچی کو صلح کے طور دوسرے فریق کو دینا اور اس سے نکاح کراناسوارہ یا ونی کی رسم کہلاتا ہے،یہ رسم  شرعا جائز نہیں ہے،کیونکہ آزاد عورت شرعا مال نہیں ہے اور بدل صلح کا مال ہونا ضروری ہے،نیز اس رسم میں عموماً عاقلہ، بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کردیا جاتا ہے جب کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے،اسی طرح اس طریقہ سے نکاح کرنے میں عموماً لڑکی اپنے حق مہر سے محروم رہتی ہے جب کہ حق مہر عورت کا واجبی حق ہے ۔لہذا ان تمام شرعی مفاسد کا حاصل یہ ہے کہ  صلح  کے طور پر لڑکی دینے کی رسم کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،یہ ایک جاہلانہ  اور ظالمانہ  رسم ہے اور بالکل حرام اور ناجائز ہے۔

3۔باقی سوارہ اور ونی  کی رسم میں صلح کے طور پر جو نکاح کیا جاتا ہے  اگر یہ نکاح عاقلہ بالغہ کا ہو اور  اس کی رضامندی کے بغیر یہ نکاح   کیاگیاہو جیسا کہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے  تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا اور یہ مرد اور عورت  جب تک ساتھ رہیں گے  اور میاں بیوی والے تعلقات  قائم کریں گے ، حرام کاری میں مبتلا رہیں گے ،اور صلح  کرانے اور کرنے والے بھی  اس قبیح گناہ  میں شریک ہوں گے۔

اگر لڑکی نابالغہ ہے او اس کا نکاح کرنے والا اس کے باپ ،دادا ( کی غیر موجودگی میں ان) کے علاوہ کوئی اورولی ہے، اور  اس  نے اس رسم قبیح میں لڑکی  کی مصلحت  کو مد نظر  رکھے بغیر  محض دشمن سے جان  چھڑانے اور اپنے  مفاد کی خاطر  بچی کی زندگی  داؤ پر لگا کر یہ نکاح  کیا ہو، جیسا کہ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے  اور  غیر کفو  یابہت ہی کم مہر کے عوض پر نکاح  کردیا ہے،تو شرعا یہ نکاح  منعقد ہی نہیں ہوگا۔اسی طرح باپ، دادا اگر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے ولا،فاسق،لالچی اورلاپراوہ    ہونے میں معروف ہیں تو ان کی جانب سے بھی نابالغہ لڑکی کا نکاح غیر کفو  یابہت ہی کم مہر کے عوض پر کرنے سے منعقد نہیں ہوگا۔

البتہ اگر نابالغہ لڑکی کا نکاح کرنے والاباپ یا دادا اپنے اختیارات  کا غلط استعمال کرنے میں معروف نہیں ،اور وہ اس طرح اپنی بیٹی کا نکاح منعقد کردیں تو نکاح تو منعقد ہوجائے گا۔تاہم وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کی بناء پر شرعاً گناہ گار ہوں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن زوج الصغير أو الصغيرة أبعد الأولياء فإن كان الأقرب حاضرا وهو من أهل الولاية توقف نكاح الأبعد على إجازته، وإن لم يكن من أهل الولاية بأن كان صغيرا أو كان كبيرا مجنونا جاز، وإن كان الأقرب غائبا غيبة منقطعة؛ جاز نكاح الأبعد، كذا في المحيط."

(کتاب النکاح،الباب الرابع في الأولياء،ج1،ص285،ط؛دار الفکر)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه.

فأنواع: (منها) أن يكون مالا فلا يصح الصلح على الخمر والميتة والدم وصيد الإحرام والحرم وكل ما ليس بمال؛ لأن في الصلح معنى المعاوضة فما لا يصلح عوضا في البياعات لا يصلح بدل الصلح."

(کتاب الصلح،فصل في الشرائط التي ترجع إلى المصالح عليه،ج6،ص42،ط؛دار الکتب العلمیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو زوج ولده الصغير من غير كفء بأن زوج ابنه أمة أو ابنته عبدا أو زوج بغبن فاحش بأن زوج البنت ونقص من مهرها أو زوج ابنه وزاد على مهر امرأته؛ جاز وهذا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، كذا في التبيين وعندهما لا تجوز الزيادة والحط إلا بما يتغابن الناس فيه قال بعضهم: فأما أصل النكاح فصحيح والأصح أن النكاح باطل عندهما هكذا في الكافي والصحيح قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في المضمرات وأجمعوا على أنه لا يجوز ذلك من ‌غير ‌الأب والجد ولا من القاضي، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاف فيما إذا لم يعرف سوء اختيار الأب مجانة أو فسقا أما إذا عرف ذلك منه فالنكاح باطل إجماعا وكذا إذا كان سكران لا يصح تزويجه لها إجماعا كذا في السراج الوهاج، وإن كانت الزيادة والنقصان بحيث يتغابن الناس في مثله يجوز بالاتفاق."

(کتاب النکاح،ج1،ص294،ط؛دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانة وفسقا (وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقا وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق، أو شرير، أو فقير، أو ذي حرفة دنية لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة بحر (وإن كان المزوج غيرهما) أي غير الأب وأبيه ولو الأم أو القاضي أو وكيل الأب، لكن في النهر بحثا لو عين لوكيله القدر صح.

(لا يصح) النكاح (من غير كفء أو بغبن فاحش أصلا).

(قوله لم يعرف منها إلخ) أي من الأب والجد، وينبغي أن يكون الابن كذلك بخلاف المولى فإنه يتصرف في ملكه، فينبغي نفوذ تصرفه مطلقا كتصرفه في سائر أمواله رحمتي فافهم (قوله مجانة وفسقا) نصب على التمييز وفي المغرب الماجن الذي لا يبالي ما يصنع وما قيل له ومصدره المجون والمجانة اسم منه والفعل من باب طلب. اهـ. .

وفي شرح المجمع حتى لو عرف من الأب سوء الاختيار لسفهه أو لطمعه لا يجوز عقده إجماعا. اهـ

(قوله وإن عرف لا يصح النكاح) استشكل ذلك في فتح القدير بما في النوازل: لو زوج بنته الصغيرة ممن ينكر أنه يشرب المسكر، فإذا هو مدمن له وقالت لا أرضى بالنكاح أي ما بعد ما كبرت إن لم يكن يعرفه الأب بشربه وكان غلبة أهل بيته صالحين فالنكاح باطل لأنه إنما زوج على الظن أنه كفء اهـ قال إذ يقتضي أنه لو عرف الأب بشربه فالنكاح نافذ مع أن من زوج بنته الصغيرة القابلة للتخلق بالخير والشر ممن يعلم أنه شريب فاسق فسوء اختياره ظاهر. ثم أجاب بأنه لا يلزم من تحقق سوء اختياره بذلك أن يكون معروفا به فلا يلزم بطلان النكاح عنه تحقق سوء الاختيار مع أنه لم يتحقق للناس كونه معروفا بمثل ذلك. اهـ.

والحاصل: أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيئ الاختيار واشتهر به عند الناس، فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله، بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله، ولو كان المانع مجرد تحقق سوء الاختيار بدون الاشتهار لزم إحالة المسألة أعني قولهم ولزم النكاح ولو بغبن فاحش أو بغير كفء إن كان الولي أبا أو جدا."

(کتاب النکاح،باب الولی،ج3،ص68،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں