بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

سوالات کے جواب پر اجرت لینے کا حکم


سوال

کیا ہم اسلامی سوالات کے جوابات دے کر اجرت لے سکتے ہیں؟کیا یہ حلال ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی مفتی کے لیے سوالات کے زبانی جواب پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کسی  مفتی کو (جس میں افتاء کی پوری صلاحیت بھی ہو)کسی ادارے یا شخص نے اسی کام کے لیے مقرر کیا کہ وہ لوگوں کے سوالات کا جواب دیے، تو وقت دینے کے بدلے میں اسی شخص یا ادارے سےاجرت لے سکتا ہے، اور اگر تحریری جواب ہو تو اس صورت میں سوال پوچھنے والے سے بھی رقم لینے کی گنجائش ہے، البتہ مروت كے خلاف ہونے كي وجہ سے نہ لینا بہتر ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(يستحق القاضي الأجر على كتب الوثائق) والمحاضر والسجلات (قدر ما يجوز لغيره كالمفتي) فإنه يستحق أجر المثل على كتابة الفتوى؛ لأن الواجب عليه الجواب باللسان دون الكتابة بالبنان، ومع هذا الكف أولى احترازا عن القيل والقال وصيانة لماء الوجه عن الابتذال بزازية، وتمامه في قضاء الوهبانية وفي الصيرفية: حكم وطلب أجرة ليكتب شهادته جاز، وكذا المفتي لو في البلدة غيره."

(مطلب في إجارة المستأجر للمؤجر ولغيره، ج: 6، ص: 92، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604100546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں