بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عقد شرکت میں متعین نفع لینے کی ایک صورت


سوال

میرے کچھ پیسے میرے کسی جاننے والے کے پاس بزنس کے طور پر استعمال میں ہیں، وہ مجھے پر گز کے ساتھ پچاس پیسے دیتا ہے، جتنا کپرا پرنٹ ہوگا ، اتنے  پیسے  پچاس پیسے کے حساب سے ملیں گے، میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ معاملہ جائز ہے یا ناجائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی اعتبار سے اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ کاروبار میں شراکت اختیار کرے اور وہ کاروبار جائز اور حلال ہو تو شراکت درست ہے، البتہ یہ شراکت نفع اور نقصان دونوں کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ نیز شراکت میں نفع کی تعیین نفع کے فیصد/حصص کے اعتبار سے کرنا لازم ہے، کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینا مثلاً یہ کہناکہ ہر  مہینے یا اتنی مدت بعد مجھے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے،   یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ اسی طرح اپنے آپ کو نقصان میں شریک نہ کرنا یہ بھی درست نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ  متعین نفع مقرر کر کے  کی  گئی شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  اگر  مذکورہ شخص کا پرنٹنگ کا کام ہے، اور سائل نے مذکورہ شخص کے کاروبار میں اس طور پر اپنی رقم لگا کر سرمایہ کاری کی ہے کہ وہ شخص گاہگوں کو جتنا  کپڑا پرنٹ کر کے دے گا، اس میں ہر گَز کے بدلے سائل کو پچاس  روپے دے گا، تو  معاملہ کی یہ صورت  شرعاً جائز نہیں، اور اس صورت میں حاصل کیاجانے والانفع بھی حلال نہیں ہے، بلکہ  مذکورہ معاملے کو ختم کرنا ضروری ہے، اس کے بعد اگر شراکت جاری رکھنی ہو تو شرعی احکام کی رعایت رکھتے ہوئے از سرِ نو معاہدہ کیا جائے۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه ) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري , شَرِكَة الْعَنَان, كتاب الشركة,5/188)

"مبسوط سرخسی" میں ہے:

"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك بركتك منه"، والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما، ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملاً منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد."

(11/157،فصل استحقاق الربح في طريق الشركة, كتاب الشركة,دارالفکر)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح".

(6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں