ایک عامل جو کہ میرا استاد ہے اور میری ان سے یہ بات ہوئی ہے کہ میں ان سے وہ عملیات سیکھوں گا جو قرآنی ہوں یا احادیث اور معلوم معانی والے ہوں، لیکن کچھ دن پہلے ان سے میں نے ایک وظیفہ لیا جو کہ قرآن ہی کی کچھ آیاتِ مبارکہ ہیں، لیکن اس سے پہلے ایک اسم ہے جس کا نہ اسم صفتی ہونا معلوم ہے اور نہ ہی اس کا معنی و مطلب معلوم ہے، گوگل پر سرچ کرنے کی کوشش کی ، لیکن بے سود ، اب مجھے یہ شک ہے کہ یہ کوئی شرکیہ اسم نہ ہو ،حالاں کہ اسی وقت میں نے ان سے اپنے شک کا اظہار بھی کیا تھا، انہوں نے کہا یہ بالکل ٹھیک ہے، آپ کسی عالم صاحب سے معلوم کرلیں ،لفظ یہ ہے "یا بوش" (yaboosho)، اس کے بعد "بسم الله الرحمٰن الرحیم ، یاأیھا المزمل۔۔۔۔۔۔۔ كثیبا مھیلا"پڑھنا ہے، کیا لفظ بوش پڑھنا جائز ہے ؟ اسماء الحسنٰی میں سے تو نہیں ہے یہ، تو پھر اس کا معنی کیا ہے ؟ کیا اس لفظ کے ساتھ وظیفہ کرنا یا چلہ کشی کرنا جائز ہے ؟
وظائف سےمتعلق یہ حکم ہے کہ جو وظائف درجِ ذیل شرائط کے ساتھ ہوں وہ جائز ہیں:
(۱) ان کا معنی ومفہوم معلوم ہو، (۲) ان میں کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳) ان کے مؤثر بالذات ہونے کا اعتقاد نہ ہو ۔
لہذا ایسے وظائف جو آیاتِ قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں تو لوگوں کے فائدے کے لیے جائز کاموں کے لیےان کو لکھنا، استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں اور جن وظائف میں کلماتِ شرکیہ یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منترہوں یا الفاظ معلوم اور صحیح ہوں لیکن انہیں مؤثر حقیقی سمجھا جائے تو ان کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں لفظ ’’بُوْش‘‘ (باء پر پیش کے ساتھ) فارسی زبان کا لفظ ہے، اور اس کے کئی معانی آتے ہیں، جس میں سے ایک معنیٰ ہستی کے بھی ہیں، لہٰذا اگر اس لفظ سے یہی معنیٰ مقصود ہوں، اور ہستی سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہو ، تو اس صورت میں یہ "یا بوش" کا ورد کرنے کی گنجائش ہوگی،لیکن اگر اس سے اللہ کی ہستی سے مدد مانگنا مقصود نہ ہو، یا کسی اور ذات کو پکارنا مقصود ہوتو یہ وظیفہ کرنا جائز نہیں۔
بہرحال چوں کہ اس لفظ کے اندر دیگر معانی کا بھی احتمال ہے، اور اللہ تعالیٰ کو پکارنے کے لیے یہ لفظ معروف نہیں، لہٰذا اس لفظ سے اجتناب کیا جائے تو بہتر ہے، اور اس کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام یا دیگر معروف صفاتی ناموں سے اللہ کو پکارا جائے۔
لغت نامہ دھخدا میں ہے:
"بوش: بودن، کون، وجود، ہستی"
(ج:4، ص:5076،ط: دانشگاہ تہران)
معارف القرآن میں ہے:
ـ"۔۔۔ حمد و ثنا کرو تو اسی کی کرو اور حاجت روائی، مشکل کشائی کے لئے پکارو تو اسی کو پکارو۔اور پکارنے کا طریقہ بھی یہ بتلا دیا کہ انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو جو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں۔
دعا کے بعض آداب
اس لئے اس آیت سے دو ہدایتیں امت کو ملیں، ایک یہ کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ذات حقیقی حمد و ثنا یا مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لئے پکارنے کے لائق نہیں، دوسرے یہ کہ اس کے پکارنے کے لئے بھی ہر شخص آزاد نہیں کہ جو الفاظ چاہے اختیار کرلے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں وہ الفاظ بھی بتلا دیئے جو اس کے شایاں ہیں اور ہمیں پابند کر دیا کہ انہی الفاظ کے ساتھ اس کو پکاریں، اپنی تجویز سے دوسرے الفاظ نہ بدلیں کیونکہ انسان کی قدرت نہیں کہ تمام پہلوؤں کی رعایت کر کے شایان شان الفاظ بنا سکے۔
بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے ننانوے (99) نام ہیں جو شخص ان کو محفوظ کرلے وہ جنت میں داخل ہو گیا، یہ ننانوے نام امام ترمذی اور حاکم نے تفصیل کے ساتھ بتلائے ہیں۔"
(معارف القرآن للمفتی محمد شفیعؒ،سورۃ الأعراف ، الآیۃ:180، ج:4،ص:129، ط: مکتبۃ معارف القرآن)
فتاویٰ شامی میں ہے:
[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية
(قوله التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ."
(رد المحتار علی الدر المختار، ، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللبس،ج: ۶، ص: ۳۶۳-۳۶۴، ط: سعيد )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100978
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن