بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارہ کی طرف سے بچوں کی شادی کے لیے ملنے والی رقم کی وصولی کے لیے رشوت دینا


سوال

آفس میں یہ ہوتا ہے کہ کسی ورکر کے بچوں کی شادی ہو تو پورے کاغذات جمع کروانے پر ايك  لاکھ کے قریب پیسے ملتے ہیں لیکن اس میں سے تقریبا بیس ہزار رشوت کے طور پر کاٹتے  ہیں ، اگر نہ کٹوائیں  تو پیسے نہیں ملتے، تو کیا ہم یہ نيت  کر لیں کہ جو وہ ہم سے بیس ہزار مانگیں تو ہم تحفہ کی نیت کر کے دے دیں۔ کیا یہ نیت درست ہے ؟

 

جواب

صورتِ مسئولہ ميں  اگر کوئی ملازم  اپنے بچے کی شادی کے لیے  ادارہ سے  رقم حاصل  کرنے کے لیے   ادارہ  کے قواعد وضوابط  کے مطابق مکمل کاغذات جمع کروائے اور وہ مطلوبہ شرائط پر پورا اترتا ہو ، جس پر  متعلقہ ادارہ کی طرف سے اس کو ایک لاکھ روپے دئیے جائیں تو  اس کو ملنے والی یہ رقم اس کا حق ہے، درمیان میں کسی شخص کا اس کو وہ رقم حوالہ کرنے کے لیے بیس ہزار روپے لینا  ”رشوت“ ہے  جوکہ ناجائز اور حرام ہے، ایسی صورت میں مذکورہ شخص کو چاہیے وہ ادارہ کے مالکان اور مجاز  انتظامیہ تک یہ بات پہنچائے اور اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر  کسی طرح اس کا کام ہوجائے،  البتہ اگر    وہاں تک رسائی نہ ہو،اور کسی طرح اس رشوت دئیے بغیر اس کو  جاری شدہ پیسے نہ مل رہے ہوں تو   مجبوری میں رشوت دینے پر امید ہے کہ دینے والے پر اس کا مواخذہ نہیں ہوگا، البتہ لینے والا گناہ گار ہوگا۔ 

لیکن اگر ملازم ادارہ کے قواعد وضوابط کے مطابق اس رقم کا حق دار نہ ہو، اور وہ   درمیان میں کسی کو  کچھ  رقم دے کر اپنے  بچہ کی شادی لیے رقم جاری کروائے تو شرعاً یہ جائز نہیں ہے، اس صورت میں  دونوں کے حق میں یہ رشوت ہوگا،اور دونوں گناہ گار ہوں گے۔

 سنن أبی داود  میں ہے:

"عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»." 

 (3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

(7/ 295، کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني، ط:دارالکتب العلمیة)  

فتاوی شا می میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ ."

(6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں