بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیونگ اکاؤنٹ اور تکافل کا حکم


سوال

میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا کیسا ہے؟اور تکافل کرنا کیسا ہے؟  کیا یہ دونوں جائز ہیں؟

جواب

جس طرح سود لینا اور استعمال کرنا ناجائز ہے،  اسی طرح اپنی رضامندی اور اختیار سے سود کا معاہدہ کرنا بھی ناجائز ہے۔ میزان بینک یا کسی بھی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے میں چوں کہ سودی معاہدہ ہوتا ہے؛ لہذا میزان بینک سمیت کسی بھی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا ہی جائز نہیں ہے۔ مجبوری ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت ہے، اگر لاعلمی میں سیونگ اکاؤنٹ کھول لیا ہو یا اپنے اختیار کے بغیر ادارے نے کھول دیا ہو تو اولاً اسے کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کردیا جائے اور  اصل رقم پر اضافہ وصول نہ کیا جائے۔ اور اگر فی الحال کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کرنا ممکن نہ ہو تو سودی/ منافع کی رقم وصول ہی نہ کی جائے۔

جمہور علماءِ کرام کے نزدیک  کسی بھی قسم کی  بیمہ (انشورنس) پالیسی  سود اور قمار (جوا) کا مرکب  ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اور  مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر  بعض ادارے  جو ”تکافل“ کے عنوان سے نظام  چلارہے ہیں، اس نظام سے متعلق    اکثر جید اور مقتدر علماءِ کرام کی  رائے عدمِ جواز کی ہے، لہذا میزان بینک یا دیگر اداروں کی تکافل پالیسی لینے اور اس میں رقم جمع کرانے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201887

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں