بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیونگ اکاؤنٹس کے سودی منافع کو حلال قرار دینے کے اعذار اور اس بارے میں شیخُ الازہر مح سید طنطاوی کے فتویٰ کی حیثیت


سوال

آپ حضرات کے بقول بینکوں سے ملنے والا فکس پرافٹ سود کہلاۓ گا، جب کہ زمانۂ جہالت میں تو بینکنگ سسٹم نہیں تھا، پھر آج کل کوئی بزنس نہیں ہوسکتا،اور پھر بندہ رقم گھر  میں بھی نہیں رکھ سکتا،کیاکیا جاۓ؟ آپ یہ جواب نہ دیں کہ یہ سود ہے، کیوں کہ میرے پاس مصر کے مفتی طنطاوی کا فتویٰ  ہے کہ یہ سود نہیں ہے ،لہٰذااس میں سوچ سمجھ  کر مشورہ دیں ۔

جواب

واضح رہے کہ مروجہ بینکنگ کے نظام میں جو کام سودی ہیں ان میں ایک بینک ڈپازٹ بھی ہے،اور بینک میں فکس ڈپازٹ کے طور پر رکھوائی گئی رقم پر ملنے والا طے شدہ منافع   محض سود ہونے کی وجہ سے ناجائز  ہی ہے، اس میں کوئی دو راۓ نہیں،نہ ہی اس مسئلے کی وضاحت کے لیے مزید دلائل و براہین کی ضرورت ہے،اور سوال میں ذکر کردہ  مجبوریاں شرعاً و عقلاً اس قابل  ہی نہیں کہ انہیں کسی خاطر میں لایا جاسکے، چہ جاۓ کہ انہیں کسی ادنیٰ سے عذر کا بھی درجہ دیا جاۓ،کیوں کہ جہاں تک بزنس کی بات ہے تو  منافع کے حصول کے لیے  شریعت میں اگرایک  ناجائزراہ  انسانی معاشرے کی ا صلاح کی خاطر بند رکھی گئی ہے،تو وہاں  اس سے بدرجہا بہتر کئی جائز اور متبادل ذرائع بھی پیش کیےگئے ہیں،کہ مثلاً جو رقم انسان کی ملکیت میں ہے،اگر انسان اس سے تجارت کرکےازخود نفع نہیں کماسکتاتو وہ رقم کسی قابلِ اعتماد شخص کو نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر،مخصوص منافع مقرر کرکے شرکت یا مضاربت  کے لیے دےدی جائے،اور جائزاورپاکیزہ  طریقے سے منافع کا حصول ممکن بنایا جاۓ۔

 عمومی احوال پر نظر کی جاۓ تو  عصرِ حاضر میں لوگوں کی اکثریت کو  بینکوں کے سودی منافع سے کوئی سروکار نہیں ہے،بلکہ وہ  گھروں میں بیٹھ کر مفت کےمنافع حاصل کرنےکےبجاۓ اپنے زورِ بازوپر حق حلال کی کمائی کوہی زیادہ پسند کرتےہیں،اسی طرح تمام لوگوں میں زیادہ سے زیادہ ایک تہائی افراد ہی اپنی رقوم حفاظت کی  غرض سے بینکوں میں رکھواتے ہیں،اوربقیہ لوگ اپنا پیسہ گھروں یا دیگر جگہوں میں ہی محفوظ رکھتے ہیں، جو ایک عام فہم بات ہے،لہٰذا یہ دونوں باتیں کسی صورت قابلِ قبول نہیں ۔

باقی آپ نے مرحوم ڈاکٹر  محمد سید طنطاوی  رحمہ اللہ کے حوالے سے بینکوں کے انٹرسٹ کو حلال قرار دینے والے فتوے (جس میں ڈاکٹر محمد سیدطنطاوی صاحب مرحوم نے بینک انٹرسٹ کو منافع میں داخل کرے حلال قرار دینے کی کوشش کی ہے)  کی طرف جو اشارہ کیا ہےتو اس  فتوے کی   حقیقت و حیثیت ذیل میں واضح کی جارہی ہے:

 یہ فتویٰ  مرحوم طنطاوی ہی کا جاری کردہ فتویٰ ہے،عصری تعلیم میں ایم اے آنرز کی ڈگری حاصل کرنے کی وجہ سےمصری حکومت کی جانب سے انہیں 1986ء میں  مصر کے سرکاری عہدے "مفتی اعظم"کی نشست  پر بٹھادیا گیا تھا، 1989ءمیں مصر میں اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی پُرزور  تحریک شروع ہوئی اور   مذہبی و اقتصادی طبقات کی جانب سے بوسیدہ مغربی  نظام پر مشتمل سودی بینکاری کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا،جس پر حکومت نے طنطاوی مرحوم کو فتویٰ جاری کرنے کے لیے کہا۔فقہ ، افتاء ،اقتصادومعاشیات سے کسی قسم کی مناسبت نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر صاحب مرحوم  نے 8 ستمبر  1989ء میں ایک فتوی جاری کیا، جس میں صرف حکومت کے سیکیورٹی بانڈز اور سیونگ اکاؤنٹ کے منافع کو جائز قرار دیا گیا  تھا مگر بینکوں کے قرضوں پر وصول کی جانے والی رقم کو سود ہی کہا گیا تھا،یہ فتوی  ان سیونگ سرٹیفکیٹس کے بارے میں تھا جو مصر کاسودی نیشنل بینک جاری کرتا ہے،ان کے اس فتوے کو خود مصر میں بھی کوئی پذیرائی نہ مل سکی،بلکہ اس فتوے کے شائع ہونے کے بعد عرب و عجم کے تمام علماء نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے قرآن و سنت کی  صریح نصوص کے خلا ف قرار دے کر ٹھوس دلائل سے اس فتوے کو مسترد کردیا  اور بینکوں کے ہر قسم کے منافع کو سود قرار دیا۔

جب کہ اس سے قبل  اسی دارالافتاء ازہر  سے مصر کے سابق مفتی شیخ جادالحق علی جاد الحق نے 14 مارچ 1979ء کو ایک فتوی جاری کیا تھا،جس میں کہا گیا تھا کہ"حکومت مقرر شدہ منافع کے وعدے پر جو سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے یہ اس قرض کی طرح ہیں جس پر سود ادا کیا جاتا ہے، اور شریعتِ اسلامی نے  ایسے قرض کو حرام قرار دیا ہےجس پر منافع پہلے سے طے کرلیے گیے ہوں،خواہ قرض دینے او ر لینے والا کوئی بھی ہو،کیوں کہ ایسے قرض کو کتاب اللہ ،سنت رسول ﷺاور اجماعِ امت تینوں نے حرام قرار دیا ہے."

اس فتوے میں بینک ڈپازٹ پر  ملنے والے منافع کو بھی  سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام قرار دیا گیا تھا ، 2 فروی 1998ء تک  اسی طرح کے چھ فتوےمزید   جاری کیے گئے، اور بعینہ یہی فتویٰ طنطاوی صاحب نے بھی سیونگ سرٹیفکیٹس اور بینک ڈپازٹس کے بارے میں  20 فروری 1998ء کو بذاتِ خود جاری کیا تھا ،چناں چہ علامہ یوسف قرضاوی  رحمہ اللہ نےاپنی کتاب "فوائد البنوك هي الربا الحرام"میں طنطاوی صاحب کامذکورہ فتوی نقل فرمایا ہے،جس میں  طنطاوی صاحب مسئلۂ ہذا سے متعلق  ایک استفتاء کے جواب میں   قرآن و حدیث سے ربا کی حرمت پر دلائل  پیش کرنے کے بعد  فرماتے ہیں:

"...... وأجمع المسلمون على تحريم الربا، والربا في اصطلاح الفقهاء المسلمين هو زيادة مال في معاوضة مال بمال بدون مقابل‏ وتحریم الربا بهذا المعنى أمر مجمع عليه في كل الأديان السماوية.

لما كان ذلك، وكان إيداع الأموال في البنوك أو إقراضها أو الاقتراض منها بأي صورة من الصور مقابل فائدة محددة مقدما زمنا ومقدارا يعتبر قرضا بفائدة و کل قرض بفائدة محددة مقدما حرام كانت تلك الفوائد التي تعود على السائل داخلة في نطاق ربا الزيادة المحرم شرعا بمقتضى النصوص الشرعية. وننصح کل مسلم بأن يتحرى الطریق الحلال لاستثمار ماله والبعد عن کل ما فیه شبهة الحرام؛ لأنه مسئول يوم القيامة عن ماله: من أين اکتسبه وفیما أنفقه. والله سبحانه وتعالي أعلم."

(مناقشه علمية هادئة لفتوي فضيلة مفتي مصر بشأن شهادات الاستثمار، ص:90، ط:دار الصحوة للنشر والتوزيع - القاهرة)

ترجمہ:"سود کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے اور فقہاء کی اصطلاح میں  سود یہ ہے کہ  مال کے بدلے مال ہو تو اس ميں بلا مقابل كچھ زياده مال دے دينا۔اس طرح کے سود کی حرمت تمام آسمانی مذاہب میں متفق علیہ ہے،بینک سے قرض لینا یا اس کو دینا اور اس پر کسی صورت میں بھی پیشگی نفع طے کرلینے کوسودی قرض کہا جاۓ گا اور اس طرح جو بھی نفع حاصل کیا جاۓ گا وہ سود کی تعریف میں داخل ہوگا جو کہ شرعاً حرام ہے، نصوصِ قطعیہ بھی اس کی حرمت کا تقاضہ کرتی ہیں اس لیے ہم ہر مسلمان کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاری کے لیے حلال راستے تلاش کرے اور اس راستے سے دور رہے جس پر حرام کا شبہ ہو،کیوں کہ قیامت کے دن اس سے اس مال کے بارے میں پوچھا جاۓ گا کہ کہاں سے کمایا تھا اور  کہاں خرچ کیا تھا."

پھر اس کے سات ،آٹھ ماہ بعد ستمبر میں طنطاوی صاحب کی راۓ بظاہریکسر بدل گئی اور انہوں نے خود علماء كے متفق علیہ فتوے کے خلاف بینک ڈپازٹس اور سیونگ سرٹیفکیٹس کوانتہائی رکیک دلائل کا سہارا لے کر حلال قراردیا،لیکن اپنےاس مذكوره فتوے كے ذریعے سے جو تھوڑی ب گنجائش طنطاوی صاحب نے حکومتی بانڈز اور سیونگ اکاؤنٹ پر منافع وغیرہ کی حلت كي نکالی،اللہ کے رسولﷺ کے فرمان"كل قرض جر منفعة فهو ربا" کی وجہ سےپوری امت کے ثقہ وسرکردہ  متدین  علماء،  اقتصادی،قانونی و معاشرتی ماہرین نے بالاتفاق  اسے سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام قرار دیا۔

نیزمرحوم طنطاوی صاحب کے اس فتوے کے بارے میں سب سے بہتر بات وہ ہےجو  مشہور محقق و مفکر،ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر علامہ محمود احمد غازی صاحب مرحوم نے فرمائی ہے،چناں چہ  اسلامی معیشت کے قیام کے حوالے سے بنیادی اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوۓ غازی صاحب رقم طراز  ہیں:

"اس وقت جہاں تک میرے علم میں ہے، دنیا ۓاسلام میں کوئی قابلِ ذکر عالم یا فقیہ سوائے موجودہ شیخ الازہر کے ایسا نہیں ہے جو بینک انٹرسٹ کو ربا نہ کہتا ہو، موجودہ شیخ الازہر سید محمد طنطاوی بینک انٹرسٹ کو ربا نہیں سمجھتے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بینک انٹرسٹ مضاربہ کی ایک جدید شکل ہے، لیکن ان کی کتاب میں نے پڑھی ہے، جس زمانے مِیں مَیں سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل تھا اور سود کا فیصلہ لکھا جا رہا تھا تو اس زمانے میں یہ ساری کتابیں دیکھنے کا موقع ملا، ان لوگوں کی تحریریں جو بینک انٹرسٹ کو ربانہیں قرار دیتے،تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا، رشید رضا کی کتاب بھی  دیکھی،شیخ الازہر کی کتاب بھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے وہ حصے جس میں ان دلائل کا جواب دیا گیا ہے ،ان کے لکھنے مِیں مَیں بھی شریک رہا ہوں ،شیخ الازہر کے بارے میں میرا حسنِ ظن ابھی تک یہی ہے کہ ان کو یہ نہیں معلوم کہ بینکنگ ہے کیا؟ اور بینک کیسے کام کرتے ہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کچھ لوگوں نے ایک دستاویز تیار کر کے دے دی ،جس میں ان کو بتایا گیا کہ بینک کا کام یہ ہوتا ہے اور اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے ،انہوں نے اس دستاویز کی بنیاد پر اپنی رائے دے دی ،خود انہوں نے وہ اقوال نقل کیے ہیں جو ان کو بتائے گئے ،اور ان کی بنیاد پر کہا ہے کہ بینک فلاں فلاں کام کرتا ہے، حالاں کہ بینک وہ کام نہیں کرتا، اس لیے میں شیخ الازہر کو ایک طرح سے اس فتوے سے بری الذمہ سمجھتا ہوں، ان کا اپنا میدان نہ فقہ ہے ،نہ معاشیات، ان کا اپنا میدان نہ بینکاری ہے نہ وہ ان معاملات کو خود براہ راست ماہرانہ انداز میں سمجھتے ہیں، ان کو جو چیز بتائی گئی اس کے مطابق انہوں نے فتوی دے دیا ،اس فتوے پر خود مصر اور عرب دنیا میں بہت سی تنقیدیں ہوئیں  اور عام طور پر عامۃالناس نے اس فتوے کو قابل قبول نہیں سمجھا۔شیخ الازہر کے علاوہ آج کوئی اور قابل ذکر دینی  یا علمی شخصیت ایسی نہیں ہے جو بینک انٹرسٹ کو ربا سمجھتی ہو، بعض متجددین البتہ ہمارے ہاں بھی ہیں اور جگہ بھی ہیں، جو اس بات کو دہراتے رہتے ہیں لیکن عامۃ  الناس میں ان کی بات کو کوئی پذیرائی ابھی تک حاصل نہیں ہوئی ."

(اسلامی بینکاری ایک تعارف،اسلامی معیشت کے قیام کے لیے اقدامات، ص:154،155، طباعت:دارالعلم والتحقیق،سنِ اشاعت:اکتوبر 2019ء)

درج بالا تفصیل کے مطابق یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مفتی مصر، مرحوم محمد سید طنطاوی کا مذکورہ فتوی قرآن و سنت اور  جمہور علماۓ امت کے اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے بہر صورت ناقابلِ قبول ہےاور بینکوں کا انٹرسٹ بھی سود کے زمرے میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔ اگر مرحوم طنطاوی کے قول کو  ان کا ذاتی تفرد کہہ کراختلاف ِ علماء پر محمول کرلیا جاۓ تو  پھر ایک عام آدمی جو اپنے دین  کی حفاظت کا خواہش مند ہواسے چاہیے کہ اس راۓ کو اختیار کرے جو  شرعی اصول  اور دلائل کے مطابق ہو،اوراگر  بالفرض جانبین کے دلائل میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا بھی ممکن نہ ہو تو پھر ان معتدل ،اہلِ تقویٰ علماء کے قول کو اختیار کرے جنہیں فقہ میں مہارتِ تامہ   حاصل ہو  اور جن کی آراء پر مسلمانوں کی اکثریت  کااعتماد ہو۔

نوٹ:(مرحوم طنطاوی صاحب کے فتوے کے سلسلے میں  ڈاکٹر علامہ یوسف القرضاوی مرحوم کی کتاب"فوائد البنوك هي الربا الحرام"سے  راہ نمائی لی گئی ہے،جس کا اردو ترجمہ "ربوا اور بینک کا سود" کے نام سے موجود ہے)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503100660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں