بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیونگ اکاؤنٹ پر بینک کی طرف سے ملنے والی اضافی رقم کا حکم


سوال

میری والدہ ریٹائرڈ ٹیچرہیں،ریٹائرڈہونے کے بعد میری والدہ کے اکاؤنٹ میں گریجویٹی اورکچھ دیگرفنڈز وغیرہ کی رقم بھیجی گئی تھی،دورانِ ملازمت والدہ کی تنخواہ بھی اسی اکاؤنٹ میں آتی تھی،اسی طرح ہرماہ کی پنشن کی رقم بھی اسی میں آتی ہے،یہ "سیونگ اکاؤنٹ" ہے،اب بینک والے ،اس جمع شدہ رقم پر(سال میں) دو دفعہ منافع لگاتے ہیں اوراسی کے ساتھ دو دفعہ ٹیکس بھی اس سے کاٹتےہیں، یعنی جولائی کی کسی ایک تاریخ میں منافع لگاکر اُسی تاریخ کو اس سے ٹیکس بھی کاٹ لیتے ہیں،پھراسی طرح جنوری کی کسی ایک تاریخ میں دوبارہ منافع لگاکر اس سے ٹیکس کاٹ لیتے ہیں،یہ منافع فكس نہیں ہوتا ،کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتاہے،اب سوال یہ ہے کہ :

1۔بینک کی طرف سے ملنے والی اس اضافی رقم کا کیا حکم ہے؟

2۔کیا میری والدہ اس کووصول کرکے کارِخیر میں خرچ کرسکتی ہے یا نہیں؟

3۔کون کون سے افراد اس رقم کو قبول کرکے استعمال کرسکتے ہیں؟

ازراہِ کرام شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب

1۔بینک کی طرف سے ملنے والی یہ اضافی رقم سود کے حکم میں ہے۔

2۔ سائل کی والدہ کے لیے اس کو وصول کرناجائز نہیں ہے،البتہ اگر لاعلمی میں وصول کرلی ہو تو ایسی صورت میں ثواب کی نیت  کے بغیر مستحقِ زکات افراد پر صدقہ کرنا لازم ہے۔

3۔جولوگ زکات کے مستحق ہیں (یعنی جس کی ملکیت ساڑھے باون تولے چاندی یا اتنی مالیت کے بقدر نقدی یا سونا اور چاندی یا حوائج اصلیہ سے زائد مال نہیں ہو یا مال تو ہو مگر قرضہ اتنا ہو کہ اسے منہا کرنے کی صورت میں نصاب چاندی کے بقدر نہیں بچتا ہو ، وہ مستحق زکوٰۃ ہے)وہ اس رقم کو قبول کرکے استعمال کرسکتے ہیں۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال."

(کتاب البیوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، الفصل السادس في تفسير الربا وأحكامه،3/117،ط:دارالفکر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن جابر - رضي الله عنه - قال: لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: (هم سواء)  رواه مسلم.

(عن جابر قال:لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - آكل الربا)أي: آخذه وإن لم يأكل، وإنما خص بالأكل لأنه أعظم أنواع الانتفاع۔۔۔۔۔(ومؤكله)۔۔۔أي: معطيه لمن يأخذه، وإن لم يأكل منه نظرا إلى أن الأكل هو الأغلب أو الأعظم كما تقدم۔۔۔(هم سواء) ، أي: في أصل الإثم، وإن كانوا مختلفين في قدره۔۔۔الخ."

(کتاب البیوع،باب الربوا،الفصل الاول،5/1915،ط:دارالفکر)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"يآاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ"(البقرة:278)

دوسری جگہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

" وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ "(المائدۃ:2)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(قوله ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(کتاب البیوع،فصل فی القرض،مطلب کل قرض جر نفعا حرام،5/166،ط:سعید)

وفیه ایضاً:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،مطلب فیمن ورث مالاً حراماً،5/99،ط:سعید)

وفیه ایضاً:

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر۔۔۔ (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.(ومسكين من لا شيء له) على المذهب۔۔۔(وعامل) يعم الساعي والعاشر۔۔۔ (ومكاتب) لغير هاشمي۔۔۔ (ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) ۔۔۔(وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة) وقيل الحاج وقيل طلبة العلم، وفسره في البدائع بجميع القرب۔۔۔(وابن السبيل وهو) كل (من له ماله لا معه).

وفی الرد:(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر)۔۔۔ وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني."

(کتاب الزکاة،باب  المصرف،2/339۔344،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں