بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سیونگ اکاؤنٹ ہولڈر سے قرض لینا


سوال

 میں نے والد صاحب سے ادھار لے کر اسی رقم کا ایک پلاٹ خرید لیا ہے اور والد صاحب سے جو میں نے رقم ادھار لی ہے اتنی ہی پوری رقم میں نے ان کو واپس کرنی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ والد صاحب نے جو مجھے ادھار دیا ہے وہ پیسے انہوں نے نیشنل سیونگ اکاؤنٹ سے نکال کر دیے ہیں جس میں سود لگتا ہے، پوچھنا یہ ہے کہ میں نے جو ادھار لیا ہےاور پلاٹ خریدا ہے کیا اس پر مجھے کوئی گناہ تو نہیں ہوگا سود کے معاملے میں؟

جواب

اگر والد نے آپ کو قرض دیتے ہوئے اپنی اصل رقم میں سے قرض دیا ہو تو اس رقم میں سے قرض لینا بلاکراہت جائز ہے اور اگر اصل کے علاوہ صرف نفع(سود) میں سے رقم دی ہو تو ضرورتِ شدیدہ کے بغیر ایسی رقم قرض لینا جائز نہیں ہے، ضرورتِ شدیدہ سے مراد یہ ہے کہ قرض لینا ضروری ہو اور حلال رقم سے کوئی قرض دینے والا نہ ہو اور اگر قرض دی گئی رقم اصل اور اس پر ملنے والے نفع (سود) سے ملی جلی ہوتو غالب رقم کا اعتبار ہوگا، اگر غالب رقم اصل کی ہو تو قرض لینا جائز ہوگا اور اصل رقم مغلوب اور سود غالب ہو تو ضرورتِ شدیدہ کے بغیر ایسی رقم قرض لیناجائز نہیں ہوگا۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"أن الحكم للغالب وإذا كان الغالب هو الحرام كان الكل حراما في وجوب الاجتناب عنها في حالة الاختيار ....  وكذلك إن كانا متساويين لأن عند المساواة يغلب الحرام شرعا قال - صلى الله عليه وسلم -: «ما اجتمع الحرام والحلال في شيء إلا ‌غلب ‌الحرام الحلال» ولأن التحرز عن تناول الحرام فرض وهو مخير في تناول الحلال إن شاء أصاب من هذا وإن شاء أصاب من غيره ولا يتحقق المعارضة بين الفرض والمباح فيترجح جانب الفرض وهو الاجتناب عن الحرام ما لم يعلم الحلال بعينه أو بعلامة يستدل بها عليه."

(كتاب التحري، 10/ 197، ط: دارالمعرفة بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310100206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں