بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سوتیلی اولاد کو اپنی طرف منسوب کرنے کا حکم


سوال

 زید کی  والدہ  نے اپنے شوہر کو چھوڑدیا ،  اور زید کی پرورش اس کی دوسری والدہ   نے کی،   جب زید آٹھ ماہ کا   تھا ،  تب سے لے  کر چھ سات برس تک زید کی پرورش دوسری  والدہ   نے کی  ہے،   زید کی دوسری والدہ  چاہتی ہے کہ زید کے نام کے آگے اس کا نام لکھا جائے،   سرکاری اسکول میں ماں کے نام کی ضرورت ہوتی ہے، تو   کیا زید کی دوسری ماں کا زید  کے  ساتھ  اپنا  نام لکھنا جائز   ہے  ؟ 

جواب

صورت  مسئولہ  میں  زید  کی  سوتیلی  والدہ  کے  لیے  جائز  نہیں  کہ  وہ  کاغذات  میں  والد ہ  کے  خانے  میں  اپنا  نام  لکھے،  کیوں  کہ  یہ  خلاف  واقع  اور  جھوٹ  ہے،البتہ  بطور  سرپرست  اور  پرورش  کرنے  والی  کے  سوتیلی  والدہ  کا  نام  لکھنا  درست  ہے  ۔

قرآن  کریم  میں  اللہ  رب  العزت  کا  ارشاد  ہے:

"وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا "  [الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ:" اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔"   (از بیان القرآن)

ریاض  الصالحین  میں  ہے:

"وعن يزيد شريك بن طارق قال: رأيت عليا رضي الله عنه على المنبر يخطب، فسمعته يقول: لا والله ما عندنا من كتاب نقرؤه إلا كتاب الله، وما في هذه الصحيفة، فنشرها فإذا فيها أسنان الإبل، وأشياء من الجراحات، وفيها: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: .. ومن ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا". متفق عليه."

ترجمہ:" حضرت علی کرم اللہ وجہہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : جو شخص اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا والد قرار دے گا یا غیر کی طرف منسوب کرے گا تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، روز قیامت اللہ اس کی مالی عبادات قبول نہیں کرے گا۔"

(کتاب الامور المنھی عنھا، باب تحريم انتساب الإنسان إلى غير أبيه وتوليه إلى غير مواليه، ص:498، ط:مؤسسة الرسالة، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں