بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودیہ جانے سے قبل دبئی میں پندرہ دن قیام میں نماز کا حکم


سوال

آج کل سعودی عرب جانے کی ترتیب یہ ہے کہ دبئی یا ابو ظبی میں پہلے 15 سے 16 دن اسٹے کرنا پڑے گا، پھر سعودی عرب جانا ہوگا، مسافر اسٹے کے دوران نماز میں قصر کریں گے یا اتمام؟

وضاحت:

دبئی میں مسافروں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، وہ اپنے ساتھیوں، و دیگر رشتہ داروں کے پاس جا سکتے ہیں، رات بھی گزار سکتے ہیں، سیر و تفریح کے لیے دور دور تک جا سکتے ہیں، کوئی پابندی نہیں،  مسافرین کہتے ہیں کہ اگر ہمیں جلداز جلد یہاں سے جانے کی اجازت مل جائے، تو ہم جانے کو تیار ہیں، یعنی وہ اپنی خوشی سے قیام نہیں کرتے، بلکہ مجبوری میں کرتے ہیں، نیز مسافروں کے لیے عملہ کی جانب سے ایک مخصوص ہوٹل رہائش کے لیے مقرر ہو۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایسے مسافرین جو پندرہ دن یا اس سے زیادہ عرصہ دبئی یا ابوظبی میں سے کسی ایک  شہر  میں ہی مقیم رہنے کی نیت کرچکے ہوں  ان پر مکمل نماز ادا کرنا لازم ہوگا،  تاہم اگر وہ گھومنے کے لیے کسی اور شہر یا  ریاست میں جاتے ہیں،  تو رہائشی شہر یا ریاست سے نکلتے ہی مسافر شمار ہوں گے، بشرطیکہ 48 میل یا اس سے زائد کا فاصلہ ہو، اور جب تک رہائشی شہر یا  ریاست میں واپس نہیں آجاتے قصر ادا کرتے رہیں گے۔

 البتہ ایسے مسافر جنہوں نے  کسی ایک ریاست میں ہی سکونت اختیار کرنے کی نیت  نہ کی ہو، بلکہ ان کا متحدہ عرب امارات کی دیگر ریاستوں میں جانے اور وہاں رات بسر کرنے  کا بھی ارادہ ہو، تو  وہ ان پندرہ یا سولہ دنوں میں  مسافر ہی شمار ہوں گے، اور نمازوں میں قصر کریں گے۔ 

اسی طرح سے  ایسے افراد جنہوں نے پندرہ دن ایک ریاست میں رہنے کی نیت کر رکھی ہو، لیکن کچھ روز بعد کسی اور  ریاست منتقل ہونے کی نیت سے  پہلی ریاست سے اقامت ترک کردیں، اور جس جگہ منتقل ہونے کا ارادہ ہو، اس جگہ اور پہلی ریاست میں  کم از کم 48 میل کی مسافت ہو تو ، اس صورت میں بھی بقیہ ایام مسافر ہی شمار ہوں گے، اور ان پر قصر لازم ہوگی۔

مذکورہ بالا تفصیل سعودیہ جانے سے قبل پندرہ یا سولہ دن کا قیام  لازمی ہونے کی صورت میں  ہے، البتہ اگر پندرہ دن سے قبل جانے کی اجازت ہو، اور مسافر دبئی یا ابو ظبی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ایام اقامت کی نیت نہ کرے تو صورت میں مسافر ہی رہے گا، چاہے اس کی اقامت کا دورانیہ پندرہ دن سے بڑھ بھی جائے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(وأما) اتحاد المكان: فالشرط نية مدة الإقامة في مكان واحد؛ لأن الإقامة قرار والانتقال يضاده ولا بد من الانتقال في مكانين وإذا عرف هذا فنقول: إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يومًا في موضعين فإن كان مصرًا واحدًا أو قريةً واحدةً صار مقيمًا؛ لأنهما متحدان حكمًا، ألايرى أنه لو خرج إليه مسافرًا لم يقصر فقد وجد الشرط وهو نية كمال مدة الإقامة في مكان واحد فصار مقيمًا وإن كانا مصرين نحو مكة ومنى أو الكوفة والحيرة أو قريتين، أو أحدهما مصر والآخر قرية لا يصير مقيما؛ لأنهما مكانان متباينان حقيقةً و حكمًا".

(كتاب الصلاة، فصل: وأمابيان مايصيرالمسافربه مقيما،  ١ / ٩٨، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو نوى الإقامة خمسة عشر يومًا في موضعين فإن كان كل منهما أصلًا بنفسه نحو مكة ومنى والكوفة والحيرة لايصير مقيمًا وإن كان أحدهما تبعًا للآخر حتى تجب الجمعة على سكانه يصير مقيمًا".

(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشرفي صلوة المسافر،١ / ١٤٠،  ط:دار الفكر)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

(ولو نواها) أي الإقامة (بموضعين كمكة ومنى لا يصير مقيما إلا أن يبيت بأحدهما) لأن إقامة المرء تضاف إلى مبيته هذا إذا كان كل من الموضعين أصلا بنفسه وإن كان أحدهما تبعا لآخر قريبا من المصر بحيث تجب الجمعة على ساكنه فإنه يصير مقيما فيهما بدخول أحدهما أيهما كان لأنهما في الحكم كموطن واحد كما في التبيين.

وفي السراجية رجل قدم مكة حاجا في عشر الأضحى وهو يريد أن يقيم بها سنة فإنه يصلي ركعتين حتى يرجع من منى لأن نية الإقامة للحال لا معتبر بها لأنه يحتاج إلى أن يخرج إلى منى لقضاء المناسك فصار بمنزلة نية الإقامة في غير موضعها وإذا خرج إلى منى يصلي أربعا إلا إذا كان لاحقا.

( كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ١ / ١٦٢، ط: دار إحياء التراث العربي)۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں