بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودی میں سر عام دستیاب بیئر (beer) سے متعلق


سوال

(beer) بئیرکے  حرام ہونے کا فتوی ہے، مگر سعودی عربیہ میں جو بئیر ملتا ہے اور سرعام بازاروں میں دست یاب ہے  اور  لوگ بھی پیتے ہیں، اس  سے  مجھے شبہ ہوتا ہے۔کیا اس مسئلے میں کوئی فروعی اختلاف ہے؟ یا وہ بئیر واقعی الکوحل سے پاک ہوتا ہے؟

جواب

واضح ہو کہ کسی مشروب  کےحلال یا حرام ہونے کا تعلق اس کے اجزاء سے  ہے۔نیز بیئر (beer)  چوں کہ عام طور پر نشا   آور اور  حرام اجزاء  پر مشتمل ہوتی ہے، لہذا اسے ناجائز کہا جاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی  ایسا مشروب ہو  جس میں حرام اجزاء نہ ہوں اور وہ نشا آور نہ ہو  اور اس کا نام "بیئر" رکھ دیا جائے تو اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔

یہ اصولی بات ہے۔ اگر کسی مخصوص مشروب کے متعلق سوال کرنا ہو تو اس کےاجزاء کی وضاحت کرکے سوال کریں، نیز سعودی عرب میں جو مشروب ملتاہے اس کے اجزاء جب تک معلوم نہ ہوں اس کا حکم نہیں بتایا جاسکتا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں