بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودی میں مقیم شخص اگر پاکستان میں صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو اجازت ہے


سوال

ہم سعودی عرب میں مزدوری کرنے کے سلسلے میں مقیم ہیں تو ہم رمضان کا فدیہ یہاں سعودی عرب میں کسی غریب کو دے دیں یا پاکستان میں کسی غریب کو بھیج سکتے ہیں؟

جواب

فقہاء نے  زکاۃ  کی رقم کے متعلق لکھا ہے کہ  زکاۃ کی رقم میں بہتر یہ ہے کہ جہاں آدمی رہ رہا ہو وہیں کے محتاجوں پر خرچ کرے اور دوسری جگہ منتقلی کو  مکروہ لکھا ہے،  البتہ زکاۃ  پھر بھی ادا ہوجائے گی، اور اگر دوسری جگہ کے مسلمان زیادہ مستحق ہوں یا زکاۃ دینے والے کے مستحق رشتہ دار دوسری جگہ ہوں یا زیادہ دیندار مستحق دوسری جگہ ہوں  تو پھر کراہت بھی نہیں، بلکہ اس صورت میں افضل یہ ہے کہ ان کو دی جائے جو زیادہ مستحق ہیں، یہی حکم صدقۂ  فطر کا ہے۔

صورتِ  مسئولہ  میں مذکورہ تفصیل کی روشنی میں اگر آپ سعودیہ میں مقیم ہیں اور عید الفطر وہیں کریں گے تو آپ پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقۂ  فطر   سعودیہ  عرب کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہوگا،  خواہ آپ یہ قیمت سعودیہ عرب میں ادا کریں  یا پاکستان میں بھجوادیں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2 / 269):

"(قوله: وكره نقلها إلى بلد آخر لغير قريب وأحوج) أما الصحة فلإطلاق قوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] من غير قيد بالمكان، وأما حديث معاذ المشهور «خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» فلا ينفي الصحة؛ لأن الضمير راجع إلى فقراء المسلمين لا إلى أهل اليمن، أو لأنه ورد لبيان أنه عليه الصلاة والسلام لا طمع له في الصدقات ولأنه صح عنه أنه كان يقول لأهل اليمن: «ائتوني بخميس أو لبيس - وهما الصغار من الثياب - آخذه منكم في الصدقة مكان الشعير والذرة أهون عليكم» وخير لأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن كان في زمنه فهو تقرير، وإن كان في زمن أبي بكر فذاك إجماع لسكوتهم عنه، وعدم الكراهة في نقلها للقريب للجمع بين أجري الصدقة والصلة وللأحوج؛ لأن المقصود منها سد خلة المحتاج فمن كان أحوج كان أولى، وليس عدم الكراهة منحصرا في هاتين؛ لأنه لو نقلها إلى فقير في بلد آخر أورع وأصلح كما فعل معاذ - رضي الله عنه - لا يكره."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں