بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودی حکومت کی طرف سے پابندی کی وجہ سے بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونے کے بعد عمرہ کیے بغیر پاکستان آنے کا حکم


سوال

میرے کچھ عزیز عمرہ کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے تھے،  تین دن مکہ مکرمہ میں گزار کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے،  پھر آٹھ دن کے بعد واپس مکہ مکرمہ جاتے ہوئے میقات ذوالحلیفہ سے بغیر احرام کے گزر گئے،  ان کو لے کر جانے والوں نے نہیں روکا، بلکہ انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے دو قافلے بھی نہیں رکے؛ کیوں کہ سعودی حکومت نے حرم میں داخلے پر پابندی لگائی ہوئی ہے. برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ کیا ایسی مجبوری کی کیفیت میں ان پر دم واجب ہو گا یا نہیں؟ اور اگر دم واجب ہو گیا ہے تو اس کی ادائیگی کا کیا طریقہ ہو گا؛ کیوں کہ وہ واپس پاکستان پہنچ گئے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے جو عزیز میقات سے احرام باندھے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونے کی وجہ سے ان پر ایک دم لازم ہوچکا ہے، اور اگر وہ عمرہ کیے بغیر ہی واپس پاکستان آچکے ہیں تو عمرہ کی قضا بھی ان پر لازم ہے، اگر ممکن ہو تو کسی سے رابطہ کر کے پیسے بھجواکر حدودِ حرم میں ایک دم ادا کروادیں، یا جب عمرے کے ویزے کھل جائیں تو کسی زائر کے ہاتھ رقم دے کر حدودِ حرم میں دم دلوادیں، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو  جب عمرہ کی قضا کرنے کے لیے جانا ہو اس وقت وہاں حرم میں دم ادا کردیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 579):
"(آفاقي) مسلم بالغ (يريد الحج) ولو نفلاً (أو العمرة) فلو لم يرد واحدًا منهما لايجب عليه دم بمجاوزة الميقات، وإن وجب حج أو عمرة إن أراد دخول مكة أو الحرم على ما سيأتي في المتن قريبًا (وجاوز وقته) ظاهر ما في النهر عن البدائع اعتبار الإرادة عند المجاوزة (ثم أحرم لزمه دم؛ كما إذا لم يحرم).

قال في الفتح: يوهم ظاهره أن ما ذكرنا من أنه إذا جاوز غير محرم وجب الدم إلا أن يتلافاه، محله ما إذا قصد النسك، فإن قصد التجارة أو السياحة لا شيء عليه بعد الإحرام وليس كذلك؛ لأن جميع الكتب ناطقة بلزوم الإحرام على من قصد مكة سواء قصد النسك أم لا. وقد صرّح به المصنف أي صاحب الهداية في فعل المواقيت، فيجب أن يحمل على أن الغالب فيمن قصد مكة من الآفاقيين قصد النسك، فالمراد بقوله إذا أراد الحج أو العمرة إذا أراد مكة. اهـ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 583):
"(و) يجب (على من دخل مكة بلا إحرام) لكل مرّة (حجة أو عمرة) فلو عاد فأحرم بنسك أجزأه عن آخر دخوله، وتمامه في الفتح". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107200763

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں