بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 جُمادى الأولى 1446ھ 11 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودی حکومت سے حج کی تصریح لیے بغیر حج ادا کرنا کیسا ہے؟


سوال

سعودی عرب میں مقیم اکثر پاکستانی سعودی حکومت کے نظام کے خلاف بغیر تصریح کے حج ادا کرنے جاتے ہیں،میقات سے بغیر احرام کے یا احرام باند  ھنے کے بعد اتار کر کپڑے پہن لیتے ہیں، مکہ مکرمہ پہنچ کر احرام پہن لیتے ہیں ،پھردم یا صدقہ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائزہے ؟اورشرعاً یہ حج مبرور ہوگا یا نہیں ؟

جواب

حج مبرور کی تعریف: "حج مبرور وہ ہے جو قبول ہو جائے۔"

فتح الباری لابنِ حجر میں ہے:

"قوله الحج المبرور قيل المقبول وقيل الذي لم يخالطه إثم".

(‌‌كتاب الاعتصام، ‌‌الفصل الخامس في سياق ما في الكتاب.......، ج:1، ص:87، ط:دار المعرفة - بيروت)

حج مبرور کی علامات:

"حج مبرور یعنی مقبول حج وہ حج ہے کہ حاجی گناہوں سے توبہ و استغفار کرے اور کامل ارکان فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات کے ساتھ ادا کرے، بحالتِ احرام ممنوعات سے اجتناب کرے، ریا و نمود اور مالِ حرام سے بچے اور جملہ اخراجات (کھانا، پینا، پہننا وغیرہ) حلال مال سے ہو پھر حج کے بعد دینی حالت بہتر ہو تو سمجھیے کہ حج مقبول اور مبرور ہوا ہے۔"

(از:فتاوی رحیمیہ، کتاب الحج، ج:7، ص:39، ط:دار الاشاعت)

واضح رہے کہ جن لوگوں کے ذمہ حج فرض ہے، ان کو  قانونی اجازت حاصل کرنے کے بعد ہی حج پر جانا چاہیے، اور اگرفرض نہیں بلکہ نفل یا حجِ بدل ہے تب تو قانون شکنی کا ارتکاب اور بھی موجب گناہ ہے، تاہم اگر بلا اجازت حج کےارکان ادا کرلیے تو حج ادا ہوجائے گا، قبولیت کا مدار نیت پر ہے۔ نیز میقات سے بالقصد بغیر احرام کے گذرنا دوہری جنایت یعنی موجبِ گناہ اور موجبِ دم ہے، اگر دم ادا کردیا تو بھی گناہ ذمہ میں لازم رہا۔

نیز ایسی حرکت سے حکومت کے انتظامات میں خلل اور بدنظمی پیدا ہوتی ہے جو بسا اوقات ایذاء مسلمین کے ساتھ ساتھ ساتھ اپنی ذلت و رسوائی کا سبب بن جاتی ہے، جب کہ ایذاءمسلم بھی حرام ہے اور اپنے آپ کو ذلت کے خطرے میں ڈالنا بھی جائز نہیں، اس لیے اس عمل سے اجتناب لازم ہے۔

جہاں تک بات ہے حجِ مبرور کی تو یاد رکھیں حج مبرور حج مقبول کو کہتے ہیں، اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ آدمی ہرگناہ سے توبہ واستغفار کرے، اپنے ذمہ میں کسی کا حق باقی نہ رکھے، پاک وحلال مال سے حج کو جائے،  کسی قسم کی بدعنوانی، لڑائی جھگڑے اور معصیت میں مبتلا نہ ہو،  اور احرام کے ممنوع امور سے ا پنے آپ کی پوری پوری حفاظت کرتا رہے۔

کیوں کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ المؤمنین حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: کہ تم کو جہاد کے لیے نہیں جانا، مگر تمہارا افضل ترین جہاد حج مقبول ہے جس میں کسی برائی کا ارتکاب نہ ہو۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"(الحَجُّ أَشْهُرٌ مَعلومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الحَجَّ فَلَا رَفَثَ ولاَ فُسوقَ ولاَ جِدالَ فِي الحَجِّ، ومَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ، وتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزّادِ التَّقْوَى واتَّقُونِ يَا أُولِي الأَلْبابِ )"

(سورة البقرة، الآية:197)

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا آدم: حدثنا شعبة: حدثنا سيار أبو الحكم قال: سمعت أبا حازم قال: سمعت أبا هريرة رضي الله عنه قال:سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (من حج لله، ‌فلم ‌يرفث ‌ولم ‌يفسق، رجع كيوم ولدته أمه)".

(كتاب الحج، باب: فضل الحج المبرور، ج:2، ص:553، رقم الحديث:1449، ط:دار ابن كثير، دار اليمامة - دمشق)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا ‌محمد بن كثير: أخبرنا ‌سفيان عن ‌معاوية بن إسحاق عن ‌عائشة بنت طلحة عن ‌عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها قالت: «استأذنت النبي صلى الله عليه وسلم في الجهاد فقال: ‌جهادكن ‌الحج".

وقال عبد الله بن الوليد: حدثنا سفيان عن معاوية بهذا.

(‌‌كتاب الجهاد والسير، ‌‌باب جهاد النساء، ج:4، ص:32، رقم الحدیث:2875، دار طوق النجاة - بيروت)

کنز العمال میں ہے:

"الوضين بن عطاء عن يزيد بن مرثد عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لمؤمن أن يذل نفسه. قيل: وما إذلال نفسه يا رسول الله؟ قال: يعرض نفسه لإمام جائر". السلفي في انتخاب حديث الفراء".

وفیہ ایضاً:

"عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس للمسلم أن يذل نفسه، قالوا: يا رسول الله وكيف يذل نفسه؟ قال: يتعرض من البلاء لما لا يطيق. "طس".

(‌‌الكتاب الثالث في الأخلاق، ‌‌الباب الثاني: في الأخلاق المذمومة، ج:3، ص:802، رقم الحدیث:8807/8808، ط:مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں