بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودی عرب کے ساتھ رمضان کے روزے اور عید کرنے کا حکم


سوال

میں صوبہ پنجاب کا رہنے والا ہوں،یہاں پر میرے کچھ عزیز  لوگ چند سالوں سے اتحاد امت کے جذبہ سے رمضان شریف کے روزے اورعید سعودی عرب کے ساتھ کرتے ہیں،جوکہ عموماً پاکستان کی تاریخ سے ایک دن پہلے شروع ہوتے ہیں،شریعت مطہرہ کی روشنی میں بندہ اپنی اور اپنے عزیزوں کی اصلاح کا طالب ہے۔

براہِ کرم راہِ نمائی فرمائیں؟

جواب

واضح رہے کہ اسلامی عبادات  مثلاً روزہ، حج ، زکاۃ وغیرہ کا تعلق  قمری مہینہ سے ہے، اور خصوصاً  رمضان المبارک  کی تو ابتدا  ہی چاند دیکھنے پر موقوف ہے، ارشادِ باری تعالی ہے : "فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ " [البقرة: 185] اور اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک آسان  اور عام فہم طریقہ بتادیا کہ  چاند دیکھنے پر روزہ رکھو ، اور  چاند دیکھنے پر افطار کرو، لہذا روزہ اور عید کا مدار چاند کی رؤ یت پر ہے، یعنی اگر چاند نظر آئے تو رمضان شروع ہونے کا حکم ہوگا، اور چاند نظر نہ آئے تو رمضان کا آغاز نہیں ہوگا، یہی حکم عید کا بھی ہے۔

نیز تمام اسلامی ممالک  میں یا کسی ایک اسلامی ملک میں   بیک وقت عید منانا یا رمضان المبارک  کا  شروع ہوجانا  شرعاً ضروری نہیں ہے،    ہماری عید اور رمضان یہ عیسائیوں یا آتش پرستوں کے تہوار  کی طرح کوئی  تہوار  یا تقریب نہیں کہ  جس کو پوری دنیا میں ایک تاریخ میں کرنے کی  فکر کی جائے، بلکہ یہ سب عبادات ہیں، جو ہر خطے میں علامات کے وجود کے ساتھ مقید ہوں گی۔

  نیز اگر پوری دنیا میں  ایک ہی تاریخ میں عیدمنانا  مطلوب ہوتا تو  نبی کریمﷺ کی مدنی زندگی میں، خلفائے راشدین، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین  کے دور میں اس کی کوئی اصل ہوتی، حال آ ں کہ نبی کریمﷺ، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے مبارک دور میں اس کا اہتمام نہیں کیا گیا، اور نہ ہی اس کے لیے کسی نے آواز اٹھائی۔

نیز   کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی پورے  ضلع یا صوبے  یا پورے ملک  کے لیے ہو  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں  ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے  عمل  کرنا واجب ہوگا،  چوں کہ  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان    معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔

لہذا پاکستان میں رہنے والے شخص کا پاکستان میں ہوتے ہوئے سعودی عرب کی رؤیت کا اعتبار کرتے ہوئے روزے  رکھنا اور عید کرنا  شرعاً  درست نہیں۔

لہذا سائل کے عزیزوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کریں،اور اتحاد امت کے جذبہ سے شرعی تعلیمات کے خلاف کرنا صحیح نہیں ہے،نیز پاکستان میں رہتے ہوئے سعودیہ کے ساتھ اتحاد امت کے جذبے سے عید کرنے سے پاکستان میں جو افتراق اور اختلاف پیدا کررہے ہیں اسے بھی مدِّنظر رکھنا چاہیے ،  اور پاکستان میں رہتے ہوئے جو بھی رؤیت ہلال کمیٹی فیصلہ کرے گی،تو اس پر عمل کرنا لازم ہوگا۔

صحيح البخاری میں ہے:

"قال أبو القاسم صلى الله عليه وسلم: «‌صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته، فإن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين."

(کتاب الصوم (3/ 27) ط: السلطانية)

سنن ترمذی میں ہے:

"...... أخبرني كريب : أن أم الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها واستهل علي هلال رمضان وأنا بالشام فرأينا الهلال ليلة الجمعة ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسألني ابن عباس ثم ذكر الهلال فقال متى رأيتم الهلال ؟ فقلت رأيناه ليلة الجمعة فقال أأنت رأيته ليلة الجمعة ؟ فقلت رآه الناس وصاموا وصام معاوية، قال: لكن رأيناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما أو نراه، فقلت ألا تكتفي برؤية معاوية وصيامه ؟ قال: لا هكذا أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم."

قال أبو عيسى حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب والعمل على هذا الحديث عند أهل العلم أن لكل أهل بلد رؤيتهم."

(کتاب الصوم،باب ماجاء لکل أهل بلد رؤیتهم،ج:1،ص:148،ط:قدیمی کتب خانه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں