بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کی پیدائش کے بعد ساتویں دن سے پہلے عقیقہ کرنے کا حکم


سوال

کیا عقیقہ سات دن سے پہلے کرسکتے ہیں؟

جواب

بچے  کی پیدائش پر بطورِ شکرانہ عقیقہ  کرنا مستحب ہے، عقیقہ کا مسنون وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے، ساتویں دن سے پہلے عقیقہ کرنا مباح ہے،بہتر یہ ہے پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن عقیقہ کیاجائے۔

سنن البيهقي لأبو بكر البيهقي میں ہے:

"عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ :« الْعَقِيقَةُ تُذْبَحُ لِسَبْعٍ وَلأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَلإِحْدَى وَعِشْرِينَ »."

(کتاب الضحایا، باب ماجاء فی وقت العقیقۃ، رقم الحدیث:19771، ج:2، ص:184، ط:مجلس دائرۃ المعارف)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"(سئل) في العقيقة كيف حكمها وكيف تفعل؟

(الجواب) : قال في السراج الوهاج في كتاب الأضحية ما نصه مسألة العقيقة تطوع إن شاء فعلها، وإن شاء لم يفعل وهي أن يذبح شاة إذا أتى على الولد سبعة أيام وعند الشافعي ستة ثم إذا أراد أن يعق عن الولد، فإنه يذبح عن الغلام شاتين وعن الجارية شاة؛ لأنه إنما شرع للسرور بالمولود وهو بالغلام أكثر ولو ذبح عن الغلام شاة وعن الجارية شاة جاز؛ لأن «النبي - صلى الله عليه وسلم - عق عن الحسن والحسين كبشا كبشا» ولا يكون فيه دون الجذع من الضأن والثني من المعز ولا يكون فيه إلا السليمة من العيوب؛ لأنه إراقة دم شرعا كالأضحية ولو قدم يوم الذبح قبل يوم السابع أو أخره عنه جاز إلا أن يوم السابع أفضل".

(کتاب الذبائح، العقیقۃ، ج:2، ص:212، ط:دارالمعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101659

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں