بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساتویں دن کے بعد عقیقہ کرنے کا حکم


سوال

ہمارے ایک دوست کو کسی غیر مقلد نے عقیقے کے بارے میں کہا ہے کہ عقیقہ ساتویں دن کے بعد کرنا جائز نہیں ہے  اور  صرف بکرا ذبح کر سکتے ہیں؟

جواب

بچے  کی پیدائش پر بطورِ شکرانہ عقیقہ  کرنا مستحب ہے، عقیقہ کا مسنون وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے، اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں (14)  دن ، ورنہ اکیسویں (21) دن بھی کرسکتے ہیں،   اکیسویں دن تک کا ذکر حدیثِ پاک میں موجود ہے، اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے،اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے،  یعنی لازم، سنت یا مستحب نہیں ہے، البتہ ممانعت کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے، اس لیے اس سے منع کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اصول سے جواز ہی معلوم ہوتاہے۔ تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن کرےیا پھر  چودھویں دن، ورنہ اکیسویں دن  کرلیں۔

نیز احادیثِ مبارکہ میں  عقیقہ میں جیسے بکرے کو ذبح کرنا کا ذکر آیا ہے ایسی ہے بڑے جانور  گائے، اونٹ کا ذکر بھی آیا ہے، لہذا بکرے کی طرح گائے وغیرہ کو بھی ذبح کرنے سے سنت اداء ہوجائےگی۔

المعجم الصغير للطبراني میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من ولد له غلام فليعق عنه من الإبل أو البقر أو الغنم."

(باب من اسمہ ابراہیم، ج:1، ص:150، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اونٹ یا بیل یا بکری سے عقیقہ کرے۔

نیل الاوطار من اسرار منتقی الاخبار میں ہے:

"قد وقع الخلاف في ابحاث تتعلق بالعقيقة الأول هي يجزئ منا غير الغنم أم لا ...

وأما الأفضل  فالكبش مثل الأضحية كما تقدم والجمهور على اجزاء البقر والغنم . ويدل عليه ما عند الطبراني وأبي الشيخ من حديث أنس مرفوعا بلفظ " يعق عنه من الأبل والبقر والغنم " ونص أحمد على أنها تشترط بدنة أو بقرة كاملة . وذكر الرافعي أنه يجوز اشتراك سبعة في الأبل والبقر كما في الأضحية ولعل من جوز اشتراك عشرة هناك يجوز هنا . الثاني هل يشترط فيها ما يشترط في الأضحية وفيه وجهان للشافعية . وقد استدل بإطلاق الشاتين على عدم الأشتراط وهو الحق لكن لا لهذا الإطلاق بل لعدم ورود ما يدل ههنا على تلك الشروط والعيوب المذكورة في الأضحية وهي أحكام شرعية لا تثبت بدون دليل . وقال المهدي في البحر مسألة الامام يحيى ويجزيء عنها ما يجزئ أضحية بدنة أو بقرة شاة وسنها وصفتها والجامع التقرب باراقة الدم انتهى ولا يخفى أنه يلزم على مقتضى هذا القياس ان تثبت أحكام الأضحية في كل دم متقرب به ودماء الولائم كلها مندوبة عند المستدل بذلك القياس والمندوب في كل دم متقرب به ودماء الولائم كلها مندوبة عند المستدل بذلك القياس والمندوب متقرب به فيلزم ان يعتبر فيها أحكام الأضحية بل روى عن الشافعي في أحد قوليه ان وليمة العرس واجبة . وذهب أهل الظاهر إلى وجوب كثير من الولائم ولا أعرف قائلا يقول بأنه يشترط في ذبائح شيء من هذه الولائم ما يشترط في الأضحية فقد استلزم هذا القياس ما لم يقل به أحد وما استلزم الباطل باطل."

(کتاب العقیقۃ وسنۃ الولادۃ، ج:5، ص:198، ط:ادارة الطباعة المنیرية)

سنن البيهقي لأبو بكر البيهقي میں ہے:

"عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ :« الْعَقِيقَةُ تُذْبَحُ لِسَبْعٍ وَلأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَلإِحْدَى وَعِشْرِينَ »."

(کتاب الضحایا، باب ماجاء فی وقت العقیقۃ، رقم الحدیث:19771، ج:2، ص:184، ط:مجلس دائرۃ المعارف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں