میرے والد صاحب کا2003ء میں سترسال کی عمر میں انتقال ہوگیاتھا،میرے علم کے مطابق میرے والد صاحب نے کبھی اپنی زندگی میں رمضان کےروزے نہیں رکھے،ان ستر سال کے رمضان کے روزوں کا میں نے فدیہ دینا ہے،آپ مجھے بتادیں کہ میں والد صاحب کی طرف سےستر سال کے رمضان کے روزوں کا فدیہ کیسے اداکروں ؟ستر سال کے پورے روزوں کا حساب بتادیں ۔
واضح رہے کہ ایک روزے کا فدیہ صدقہ فطر کی مقدار(گندم کے اعتبار سے پونے دوکلو گندم یا اس کی بازاری قیمت )ہے۔
صورت ِ مسئولہ میں سائلہ کے والد جن کی عمر ستر سال رہی پھر انتقال کرگئے ،انہوں نے اپنی پوری عمر رمضان کے روزے نہیں رکھے اور سائلہ ان کی طرف سے فدیہ اد اکرنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں سائلہ اپنے والد کی ستر سالہ عمر میں بالغ ہونے کے بعد ستر سال تک کے سارے (تقریباً۵۵) سالوں کا فدیہ اس طرح ادا کرے کہ ہر سال کے تیس (یعنی کل ۵۵ سالوں کے۱۶۵۰)روزوں کا فدیہ فقراء و مساکین پر صدقہ کرے اور کراچی اور اس کے مضافات کے لیے امسال 1443ھ-2022ءجامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء کی جانب سے صدقہ فطر کی مقدار درج ذیل ہے:
گندم:150روپے
جو: 425 روپے
کھجور: 950 روپے
کشمش: 2550 روپے
فتاوی شامی میں ہے:
"ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطًا لاحتمال كون النص فيه معلولًا بالعحز فتشمل العلة الصلاة و إن لم يكن معلولاً تكون الفدية برًّا مبتدأً يصلح ماحيًا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول و لم يجزم بالأخيرين فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."
(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج: 2، ص:72، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100727
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن