بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سترہ سال پہلے ملے ہوئے پیسوں کا حکم


سوال

 تقریباً 2005 میں اپنے مقام سے کافی دور بچوں کے ساتھ سپارے پڑھنے کسی کے گھر گیا تھا وہاں اسی گھر میں مجھے(10,000/ دس ہزار روپے) نقد چارپائی کے نیچے پڑے ملے وہ میں نے اٹھا لیے، اب مجھے افسوس ہوتا ہےکہ کاش نہ اٹھاتا۔ 1 سال پہلے میں وہاں گیا تھا کہ ان سے معافی مانگوں گا اور پیسے بھی واپس کروں گا، لیکن ، اب مجھے وہ گھر بھی نہیں پتا کونسا ہے کیونکہ وہاں بہت زیادہ بلڈنگ وغیرہ بن گئی ہیں تقریباً پورا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا ہے وہاں کا. اس واقعہ کو تقریباً 17 سال ہو چکے ہیں اب مجھے کوئی طریقہ بتائیں کہ مجھے اپنے اس عمل کی دنیا میں ہی معافی مل جاۓ

جواب

واضح رہے کہ    اگر کوئی چیز یا رقم مل جائے تو اس کا حکم یہ ہے اگر اس چیز یا رقم کا مالک معلوم ہے تو اس کو لوٹادی جائے لیکن اگر مالک معلوم نہیں تو حتی الوسع اس کی تشہیر کی جائے اگر تشہیر کے بعد بھی مالک کا پتہ نہ چلے تو اس کو مالک کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے لہذا صورت مسئولہ میں آپ نے جو پیسہ اٹھائے تھے آپ پر لازم تھا کہ مالک کو تلاش کرکے اس کے حوالہ کردیتے لیکن اگر مالک نہیں مل رہا اور اتنا عرصہ گزر گیا ہے تو اسے مالک کی طرف سے صدقہ کردیں لیکن  اگر مالک  واپس آکر علامت بتا کر رقم  طلب کرے تو رقم  ادا کرنی  ہو گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم ما يجده الرجل نوعان: نوع يعلم أن صاحبه لا يطلبه كالنوى في مواضع متفرقة وقشور الرمان في مواضع متفرقة، وفي هذا الوجه له أن يأخذها وينتفع بها إلا أن صاحبها إذا وجدها في يده بعد ما جمعها فله أن يأخذها ولا تصير ملكا للآخذ، هكذا ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي - رحمهما الله تعالى - في شرح كتاب اللقطة، وهكذا ذكر القدوري في شرحه. ونوع آخر يعلم أن صاحبه يطلبه كالذهب والفضة وسائر العروض وأشباهها وفي هذا الوجه له أن يأخذها ويحفظها ويعرفها حتى يوصلها إلى صاحبها وقشور الرمان والنوى إذا كانت مجتمعة فهي من النوع الثاني......إن كان الملتقط محتاجا فله أن يصرف اللقطة إلى نفسه بعد التعريف، كذا في المحيط، وإن كان الملتقط غنيا لا يصرفها إلى نفسه بل يتصدق على أجنبي أو أبويه أو ولده أو زوجته إذا كانوا فقراء، كذا في الكافي."

(کتاب اللقطة جلد  2 ص: 290 , 291 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها وفي الجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار (كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي، وأقره المصنف وغيره (ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة (فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه، إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال) تتارخانية. وفي القنية: لو رجى وجود المالك وجب الإيصاء.(فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها (أو تضمينه)

(قوله: ولقطة ولقطة) أي لا فرق بينهما: أي في وجوب أصل التعريف ليناسب قوله إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها فإنه يقتضي تعريف كل لقطة بما يناسبها، بخلاف ما مر عن ظاهر الرواية من التعريف حولا للكل."

(کتاب اللقطة جلد 4 ص: 278  ۔ 280 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408100423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں