بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

17 سال کی عمر تک روزے نہیں رکھے، اور روزے رکھ کر توڑ دیے


سوال

 ایک شخص کہتا ہے کہ میں سترہ 17سال کی عمر میں بالغ ہوا،  اور اس سے پہلے بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھی اور  اب تک کوئی روزہ رمضان کا نہیں رکھا تھا، چوں کہ گھر والوں کی طرف سے بھی کوئی اہتمام پر  زور نہیں دیا گیا اور خود بھی برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی جسمانی طور پر کمزوری کی وجہ سے،  پھر اٹھارہ 18سال کی عمر میں باقاعدگی سے رمضان کے روزے رکھنا شروع کیے اور اس سے پہلے کبھی رکھ لیا کرتا اور کبھی جب برداشت نہیں کر پا تا تو روزہ دن میں ہی توڑ لیتا،  اب پوچھنا یہ ہے کہ وہ 18سال سے پہلے کے روزوں کا کیا کریں یعنی شرعی بلوغت پندرہ 15سال کو ہو جاتی ہے تو یہ کتنے روزوں کی قضا کرے گا؟ اور جو روزے دن کو توڑ دیے ان کا کیا کریں؟

جواب

پندرہ سال کی عمر تک  اگر بالغ ہونے کی کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو  قمری اعتبار سے پندرہ سال کی عمر ہوتے ہی بچہ کو  شرعًا بالغ  شمار کیا جاتا ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں  15 سال کی عمر سے لے کر 18 سال کی عمر ہونے تک جتنے روزے  نہیں رکھے ، ان کی قضا لازم ہوگی، اگر  اس دوران کوئی روزہ نہیں رکھا تھا تو جتنے رمضان بنتے  ہوں ان کے حساب سے اتنے مہینے کے روزے رکھے، اور اگر درمیان میں کچھ روزے رکھے تھے اور اب قضا روزوں کی تعداد یاد  نہیں ہے تو  خوب غور کرکے غالب گمان پر ایک تعداد متعین کرلے، اور اتنے روزوں کی قضا کرلے۔

اور  بلوغت کے بعد  جتنے  روزے رکھ  کر کسی شرعی عذر    (مثلًا: ایسی بیماری جس میں روزہ رکھنا واقعتًا نقصان دہ ہو) کے بغیر توڑے ہوں ان کا کفارہ دینا لازم ہوگا، تاہم   چوں کہ سب روزے کھا پی کر توڑے ہیں  تو  ان سب روزوں کی طرف سے ایک کفارہ دینا کافی ہوگا۔

روزے کا کفارہ یہ ہے کہ مسلسل  60 روزے رکھے، اگر  مسلسل روزے رکھنے کی طاقت واقعتًا طاقت نہ ہو تو  60 مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

روزہ کے کفارہ میں تداخل ہوگا یا نہیں؟

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

3376 - عن ابن عمر - رضي الله عنهما - قال: عرضت على رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عام أحد وأنا ابن أربع عشرة سنة، فردني، ثم عرضت عليه عام الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة، فأجازني، فقال عمر بن عبد العزيز: هذا فرق ما بين المقاتلة والذرية. متفق عليه. 

يريد إذا بلغ الصبي خمس عشرة سنة دخل في زمرة المقاتلين، وأثبت في الديوان اسمه، وإذا لم يبلغها عد من الذرية. في شرح السنة: العمل على هذا عند أكثر أهل العلم. قالوا: إذا استكمل الغلام أو الجارية خمس عشرة سنة كان بالغا، وبه قال الشافعي وأحمد وغيرهما، وإذا احتلم واحد منهما قبل بلوغه هذا المبلغ بعد استكمال تسع سنين يحكم ببلوغه، وكذلك إذا حاضت الجارية بعد تسع ولا حيض ولا احتلام قبل بلوغ التسع. وفي الهداية: بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال إذا وطئ، فإن لم يوجد ذلك فحتى يتم له ثمان عشرة سنة، وبلوغ الجارية بالحيض والاحتلام والحبل؛ فإن لم يوجد ذلك فحتى يتم لها سبع عشرة سنة، وهذا عن أبي حنيفة رحمه الله، وقالا إذا تم للغلام والجارية خمس عشرة سنة فقد بلغا، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله، وهو قول الشافعي رحمه الله اهـ. وأول وقت بلوغ الغلام عندنا استكمال اثنتي عشرة سنة، وتسع سنين للجارية. (متفق عليه).

( كتاب النكاح، باب بلوغ الصغير وحضانته في الصغر، الفصل الأول، ٦ / ٢٢٠٧ - ٢٢٠٨، ط: دار الفكر)

البنایہ شرح الہدایہ للعینی میں ہے:

وقالا: إذا تم للغلام والجارية خمس عشرة سنة، فقد بلغا وهو رواية عن أبي حنيفة وهو قول الشافعي - رحمه الله -) ش: وأحمد أيضا، وعليه الفتوى.

( كتاب الحجر، فصل في حد البلوغ، ١١ / ١١٠، ط: دار الكتب العلمية)

ملتقي الابحر میں ہے:

يحكم ببلوغ الغلام بالاحتلام أو الإنزال أو الإحبال وببلوغ الجارية بالحيض أو الاحتلام أو الحبل فإن لم يوجد شيء من ذلك فإذا تم له ثماني عشرة سنة ولها سبع عشرة سنة وعندهما إذا تم خمس عشرة سنة فيهما وهو رواية عن الإمام وبه يفتي وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنة ولها تسع سنين وإذا راهقا وقالا بلغنا صدقا وكانا كالبالغ حكما.

( كتاب الحجر، فصل، ص: ٦٠ - ٦١، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں