بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سترہ ہزار آبادی والے علاقہ میں جمعہ پڑھنے کا حکم


سوال

کلی تورہ  شاہ    اور اس کے ساتھ متصل آبادی (جو بلوچستان میں واقع ہے )میں جمعہ جائز ہے یانہیں؟ علاقہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے، کہ کل  آبادی سرکاری مردم شماری کے مطابق 17000(سترہ ہزار)ہیں، جن میں بالغ افراد کی تعداد  تقریباً چار ہزار کے قریب  ہے، 6اسکول ، 5مدارس ، 48 مساجد اور مختلف جگہوں میں دکانیں موجود ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ 48 عدد دکانیں ہیں،  نو دکانیں ایک اسٹاپ پر موجود ہیں، ایک میڈیکل ، ایک کلینک، ایک یوٹیلٹی  سٹور ،دو پرچوں کی دکانیں، ایک دودھ دہی کی دکان، دو مکینک کے دکان، ایک بیکری کی دکان، ایک سبزی فروش،  قصابہ اورایک  ہسپتال دو سو گز کے فاصلے پر اس کے آس پاس دو عدد میڈیکل بھی موجود ہے۔

تورہ شاہ اڈہ دسری جگہ دکانوں کی تعداد 13 ہیں، جن میں مکینک، قصائی، سبزی فروش، پرچوں، درزی، لوہار، لکڑی بھوسے کی ٹال، کریٹ گودام، تیل گودام، اور موچی  دکانیں شامل ہیں، باقی مختلف گلی کوچوں میں پرچوں کپڑے، میناری، پیکو، اور میڈیکل دکانیں موجودہیں، پہلے تھانہ بھی تھا لیکن اب نہیں۔

نیز تو رہ شاہ سے متصل جو  آبادی ہے جو باہر کے لوگ تو رہ  شاہ کے نام سے جانتے اور پکارتے  ہیں، یعنی دونوں کے درمیان ایک سیلابی نالہ  اور کچھ باغات ہیں، لیکن دونوں کے درمیان اتصال موجود ہے،  وہاں 5 اسکول، 6 مدارس، کل دکانیں 35  ہیں ، جن میں سے 14 دکانیں مسجد کے آس پاس ہیں، جن میں مکینک، موچی، سپئر پارٹس ، ویلڈنگ، پرچون، بریانی، آٹا چکی، گڈز ٹرانسپورٹ ، پنگچرز، آٹا ڈیلر، سوئی گیس، تیل دکانیں موجوو ہیں، باقی گاؤں کے مختلف گلی کوچوں میں آٹا ڈیلر ویلڈنگ، بوٹ چپل، ٹائی، پرچوں، کی کل سترہ مختلف دکانیں پائی جاتی ہیں۔

مقامی علماء اور ائمہ مساجد کے درمیان جمعہ کے جواز وعدم جواز کے بارے میں اختلاف ہے، شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ بالا علاقہ  میں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

فقہاء حنفیہ کے نزدیک جمعہ کے صحیح ہونے کے لیےاس جگہ کا مصر(شہر)ہونا یا فناءِ مصر ہونا یا قریہ کبیرہ(بڑا گاؤں)ہونا شرط ہے،قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم تین ہزار لوگوں پر مشتمل ہو،اور وہاں ضرورت کی اشیاء آسانی سے مل جاتی ہوں۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق مذکورہ علاقہ (کلی تورہ شاہ اور اس سے متصل آبادی  ) کی مجموعی آبادی  سرکاری مردم شماری کے مطابق سترہ ہزار  ہے،جس میں بالغ افراد کی تعداد  تقریبًا چار ہزار کے قریب ہے، اور   وہاں پر  روز  مرہ کی ضروریات زندگی بھی دستیاب ہیں، لہٰذا مذکورہ علاقہ قریہ کبیرہ ہےجس میں جمعہ  کی نماز قائم کرنا نہ صرف جائز بلکہ فرض ہے ۔

بدائع الصنائع ميں هے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت ... أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة ... وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح ... وأما تفسير توابع المصر فقد اختلفوا فيها روي عن أبي يوسف أن المعتبر فيه سماع النداء إن كان موضعا يسمع فيه النداء من المصر فهو من توابع المصر وإلا فلا ... وروى ابن سماعة عن أبي يوسف كل قرية متصلة بربض المصر فهي من توابعه وإن لم تكن متصلة بالربض فليست من توابع المصر، وقال بعضهم: ما كان خارجا عن عمران المصر فليس من توابعه، وقال بعضهم: المعتبر فيه قدر ميل وهو ثلاثة فراسخ، وقال بعضهم: إن كان قدر ميل أو ميلين فهو من توابع المصر وإلا فلا، وبعضهم قدره بستة أميال، ومالك قدره بثلاثة أميال، وعن أبي يوسف أنها تجب في ثلاثة فراسخ، وعن الحسن البصري أنها تجب في أربعة فراسخ، وقال بعضهم: إن أمكنه أن يحضر الجمعة ويبيت بأهله من غير تكلف تجب عليه الجمعة وإلا فلا وهذا حسن."

(كتاب الصلاة، فصل بیان شرائط الجمعۃ/ج:1/ص:260/ط:سعیدیہ)

رد المحتارمیں ہے:

"(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيلوالمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي. قوله والمختار للفتوىإلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره."

(باب  الجمعہ/ج:2/ص:138تا139/ط:سعید)

فتاوی دار العلوم دیو بند میں ہے:

"سوال(2382)موضع سوجڑو ضلع مظفر نگر میں تقریباً تین ہزار مردم شماری یا کچھ کم ہے اور بازار اس موضع میں نہیں ہے اور کوئی سودا وغیرہ کپڑا یا غلہ یا دوا بھی نہیں ملتی اور موضع کو شہر سے فصل کوس،سوا کوس کا ہے،ایسے دیہات میں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟

(الجواب)شامی میں تصریح کی ہےکہ قصبہ اور بڑے قریہ میں جمعہ صحیح ہے ،عبارت اس کی یہ ہے:و تقع فرضًا في القصبات و القرى الكبيرة التي فيها أسواق إلى أن قال: و فیما ذکرنا إشارۃ إلى أنھا لاتجوز في الصغیرة الخ...پس قریہ مذکورہ بظاہر قریہ کبیرہ ہے کہ آبادی اس کی تین ہزار کے قریب ہے،لہذا جمعہ پڑھنا اس میں واجب ہے اور صحیح ہے۔فقط۔"

(ج:5/ص:62/ط:دار الاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"سوال(2488)جس گاؤں میں احناف کے نزدیک جمعہ جائز ہےتو اس میں کم از کم کتنی آبادی ہونی چاہیے؟

(الجوب)تین،چار ہزار کی آبادی ہونی چاہیے۔فقط۔"

(ج:5/ص:101/ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں