بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ساتھی آفیسر کے طعنے سے بچنے کے لیے رشوت لینا


سوال

 میرے ایک دوست سرکاری دفتر میں ملازم ہیں، اور اس دفتر میں رشوت لینا جس طرح عام ہے اسی طرح دینا بھی عام ہے، یعنی لوگ زبردستی دیتے ہیں اگر کوئی شخص نہ لے تو دوسرے آفیسر اسے نشانہ بناتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے ہمارا بھی نقصان ہوتا ہے، چوں کہ اکثر آفیسر غیر مسلم ہیں؛ لہذا ایسی مجبوری میں رشوت لی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اگر لی ہے تو کیا کرے ؟

جواب

رشوت لینا اور دینا شرعاً حرام ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے کا ٹھکانہ جہنم بتلایا ہے، جس کی بنا پر رشوت کی لین دین سے ممکنہ حد تک بچنا ضروری ہے، پس صورتِ مسئولہ میں  محض ساتھی آفیسر کے طعنوں کی وجہ سے رشوت لینے کی اجازت نہیں ہوگی، بدستور ناجائز اورحرام ہوگا، اب تک جو رقم بطورِ رشوت لی ہے وہ  ان لوگوں کو واپس کرنا ضروری ہے جن سے لی ہے، اگر باوجود کوشش کے ان لوگوں تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردے۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"وفي القنية: الرشوة يجب ردّها ولاتملك، وفيها دفع للقاضي أو لغيره سحتًا لإصلاح المهم فأصلح ثم ندم يرد ما دفع إليه ا هـ". (362/5 ط: سعید)

وفیه أیضًا:

"لأنّ سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الردّ على صاحبه اهـ". (386/6) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107201316

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں