بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساتھی کے کاروبار میں چھ ماہ کے لیے پانچ لاکھ روپے لگاکر کاروبار کا تیس فیصد نفع لینے کا معاہدہ کرنے کا حکم


سوال

میں نے اپنے ساتھی کے کاروبار میں پانچ لاکھ  ( 500,000) روپے لگائے اور طے یہ ہوا کہ اگلے  6  ماہ تک کاروبار سے ملنے والے نفع سے مجھے تیس  30 فیصد دوگے اور   6 ماہ کے اندر اندر میری اصل رقم بھی مجھے واپس کروگے ،  کیا یہ درست ہے ؟

جواب

دو شخصوں کا پیسے ملاکر کسی کاروبار میں شرکت کا معاہدہ کرنے اور منافع کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ :

1: جس جائز اور حلال کاروبار میں شراکت کی گئی ہے، اس کاروبار کی شراکت میں نفع کی تقسیم، حاصل ہونے والے منافع کے  فیصد/حصص کے اعتبار سے کی جائے گی، نہ کہ انویسٹ کی گئی رقم کی شرح فیصد کے تناسب سے، مثلاً  یوں طے کیا جائے کہ حاصل شدہ نفع  دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے چالیس فیصد یا دونوں کے سرمایہ  کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یعنی اگر دونوں نے برابر سرمایہ لگایا ہے تو نفع بھی آدھا آدھا ہوگا۔

2: اگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یا کاروبار کو زیادہ وقت دیتاہے تو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے۔

3: اگر دونوں شریک ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام ہی نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، اسی طرح دونوں کے سرمائے کے تناسب سے نفع کی تقسیم بھی درست ہوگی، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا۔

4: کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینا مثلاً یہ کہناکہ ہر  مہینے یا اتنی مدت بعد مجھے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا انویسمنٹ کا اتنا فیصد دیا جائے  یہ طریقہ درست نہیں ہے۔یعنی متعین نفع مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

نیز یہ ملحوظ رہے جس طرح دونوں شریک کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع میں شریک ہوتے ہیں اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہوں گے،  یعنی سرمائے کے تناسب سے ہر ایک شریک نقصان میں بھی شریک ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی رقم جو آپ نے دوست کے کاروبار میں ملائی ہے اگر اس رقم کا تناسب کاروبار میں لگی ہوئی مجموعی رقم کے  حساب سے تیس فیصد یا اس سے زائد ہے تو آپ کا کاروبار کے  حاصل شدہ مجموعی نفع میں سے تیس فیصد نفع لینے کا معاہدہ کرنا جائز ہے،یعنی مثلًا آپ کے پانچ لاکھ ملانے کے بعد کل سرمایہ پندرہ لاکھ ہوگیا تو پندرہ لاکھ میں سے آپ کی رقم کا تناسب تینتیس اعشاریہ تینتیس بنتا ہے، تو ایسی صورت میں آپ کے  لیے کاروبار کے مجموعی نفع میں سے تیس فیصد لینے کا معاہدہ کرنا جائز ہوگا، لیکن اگر مثلًا آپ کے پانچ لاکھ ملانے کے بعد کل سرمایہ بیس لاکھ ہوگیا تو بیس لاکھ میں سے آپ کی رقم کا تناسب پچیس (۲۵) فیصد بنتا ہے، تو ایسی صورت میں آپ کے  لیے کاروبار کے مجموعی نفع میں سے پچیس فیصد سے زیادہ نفع لینے کا معاہدہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔

 لیکن اگر آپ چھ ماہ پورے ہونے سے پہلے ہی تھوڑی تھوڑی رقم اصل مال میں سے بھی لینا چاہتے ہیں؛ تاکہ چھ ماہ مکمل ہونے پر آپ کی طرف سے کاروبار میں لگائی ہوئی پوری رقم آپ کو واپس وصول ہوجائے تو اس صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ آپ کا ساتھی جتنی رقم آپ کو راس المال (سرمائے/ کیپیٹل) میں سے واپس کرتا رہے اس رقم کے حساب میں سے آپ کا منافع بھی کم ہوتا رہے، یعنی ایسا نہیں ہونا  چاہیے کہ آپ کی لگائی ہوئی رقم مجموعی رقم کے تناسب سے تیس فیصد سے کم ہو اور آپ تیس فیصد منافع ہی لے رہے ہوں، بلکہ آپ کی رقم کا تناسب تیس فیصد سے جس قدر کم ہوتا چلا جائے گا اسی قدر آپ کا منافع بھی کم ہوتا چلا جائے گا۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(ومنها): أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد كما في البيع والإجارة.

(ومنها): أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح." 

(كتاب الشركة، فصل فى بيان شرائط انواع الشركة، ج:6، ص:56، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو شرطا العمل عليهما جميعًا صحت الشركة، وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدًا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج. وإن عمل أحدهما ولم يعمل الآخر بعذر أو بغير عذر صار كعملهما معًا، كذا في المضمرات. ولو شرطا كل الربح لأحدهما فإنه لايجوز، هكذا في النهر الفائق.

اشتركا فجاء أحدهما بألف والآخر بألفين على أن الربح والوضيعة نصفان فالعقد جائز و الشرط في حق الوضيعة باطل، فإن عملا وربحا فالربح على ما شرطا، وإن خسرا فالخسران على قدر رأس مالهما، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الشركة، الفصل الثاني في شرط الربح، ج:2، ص:320، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144206201208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں