بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساٹھ سے ستر ہزار کے سامان تجارت پر زکوۃ کا حکم


سوال

میری ایک چھوٹی سی  دکان ہے، اگر پوری دکان کا حساب کروں تو بمشکل ساٹھ سے ستر ہزار روپے ہوسکتے ہیں، روزانہ کا کاروبار  تقریباً تین سے چار ہزار روپے کا  ہوتا ہے، اب کیا مجھ کو  زکواۃ دینا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جب  کسی عاقل بالغ مسلمان کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد  قرض منہا کرنے کے بعدنصاب کے بقدر مال (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) جمع ہوجائے تو اس دن وہ شرعاً صاحبِ نصاب شمار ہوتا ہے اوراس پر قمری سال بھی گزر جائے تو ایسے شخص پر زکواۃ ادا کرنا لازم ہوتی ہے۔

زکواۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا(بشرطیکہ نقدی،چاندی اور مال تجارت میں سے کچھ بھی نہ ہو)،  یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدرنقد رقم یامال تجارت ہے،یا کچھ سونا چاندی ،مال تجارت  اور  نقدی ملا کر ان  کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر بنتی ہو اور  اس نصاب پر جب سال گزرجائے توزکواۃ  کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔

صورت مسئولہ میں اگرسائل کےپاس صرف  مذکورہ دوکان ہے ،جس کا کل مال ساٹھ سے ستر ہزار روپے کی مالیت کے برابر ہے اور آپ  کے پاس اس کے علاوہ سونا،  چاندی،نقدی یا مالِ تجارت نہیں ہے جس کی قیمت نصاب کے برابر پہنچتی ہو تو  سائل پر زکواۃ واجب نہیں،کیوں کہ مذکورہ رقم ساڑھےباون تولہ چاندی کی مالیت سے کم ہے، لیکن اگر سائل کے پاس مذکورہ مال تجارت کے علاوہ تھوڑا بہت سونا یا چاندی ،نقد رقم  یا مالِ تجارت ہو جو قرض سے فارغ ہو، سب کوملاکر قیمت نصاب کے برابر پہنچتی ہواور اس پر سال بھی گزر جائے  تو سائل پرکل مال کا ڈھائی فیصد یعنی چالیسواں حصہ زکواۃ ادا کرنا لازم ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية) والعلم به ولو حكما ككونه في دارنا (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتبأقول: إنه خرج باشتراط الحرية على أن المطلق ينصرف للكامل، ودخل ما ملك بسبب خبيث كمغصوب خلطه إذا كان له غيره منفصل عنه يوفي دينه (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة...." 

 (كتاب الزكاة،2/ 258،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة...."

 (كتاب الزكاة،فصل أموال التجارة،2/ 20،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100766

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں