بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساتھ کام کرنے والے ہندو لوگوں کے ساتھ کھانا کھانا


سوال

ہمارے ساتھ ہندو مذہب کے لوگ بھی کام کرتے ہیں،  وہ بھی اپنے ساتھ کھانا لاتے ہیں، کیا ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں؟

جواب

غیر مسلم  جو کہ مرتد نہ ہو اور اہلِ حرب میں سے نہ ہو، اس سے معاملات کرنا اور اس کے ساتھ ظاہری خوش خلقی سے پیش آنا  اور اس کی غم خواری کرنا جائز ہے، البتہ دلی دوستی لگانا جائز نہیں۔

اگر غیر مسلم کے ہاتھ یا منہ میں کوئی نجاست وناپاکی نہ ہو، جیسے: شراب وغیرہ تو اس کا جھوٹا کھانا کھانا یا پینے کی کوئی چیز پینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ کھانے یا پینے کی چیز فی نفسہ حلال وجائز ہو، حرام وناپاک نہ ہو؛ لہذا ادارے میں غیر مسلموں کے ساتھ کھانا پڑے تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ کھانے میں اگر گوشت ہو تو جانور (مثلاً: مرغی وغیرہ) مسلمان کا ذبح کردہ ہو۔

اور غیر مسلم کے برتن میں کھانے کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  برتن پاک ہوں اور یقین ہو کہ وہ کوئی غلط چیز استعمال نہیں کرتا تو اس کے برتن میں یا اس کا کھانا  جائز ہے، اگر علم نہ ہو تو اس میں کراہت ہے، لیکن کھالیا تو وہ حرام نہیں ہوگا، اور اگر علم ہو کہ  وہ کھانے پینے کی چیزوں میں نجس چیز ملاتا ہے یا اس کے برتن ناپاک ہیں تو  ایسی صورت میں کھانا جائز نہیں ہے۔

" الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب."

(نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)

"وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘ (حواله بالا)
" وأما نجاسة بدنه فالجمهور علی أنه لیس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالیٰ أحل طعام أهل الکتاب". (تفسیر ابن کثیر تحت قوله تعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ﴾ الآیة : ۲/۳۴۶ ط سهیل أکادمي)

الفتاوى الهندية (5/ 347):

’’قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں