بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ستر کی تعریف/ شرٹ کی وجہ سے کمر کھل جائے تو نماز کا حکم/ شارٹس میں نماز پڑھنا


سوال

اکثر مسجد میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ شلوار کی جگہ شارٹس یا کچھا پہن کر آتے ہیں جو کہ ٹخنوں سے کافی اوپر ہوتا ہے اور شرٹس پہن کر آتے ہیں تو سجدے میں ان کی کمر نظر آتی ہے، اب پوچھنایہ ہے کہ:

1. شریعت میں ستر کی کیا تعریف ہے ؟

2. شلوار یا شارٹس یا کچھا ٹخنوں سے یا زمین سے کتنا اونچا یا اوپر ہونا چاہئے کہ نماز ہو جائے؟

3. کمر کے نظر آنے یا ظاہر ہونے سے کیا نماز ہو جاتی ہے؟

جواب

1.    ستر بدن کے اس حصے کے چھپانے کو کہا جاتاہے جس کا چھپانا نماز میں نہ صرف ضروری ہے، بلکہ اس کے کھلے ہونے کی حالت میں نماز نہیں ہوتی، مرد کا ستر ناف کے متصل نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے، گھٹنے ستر میں شامل ہیں، جب کہ عورت کا پورا بدن سوائے تین اعضاء کے ستر میں داخل ہے، وہ تین اعضاء یہ ہیں:  چہرہ،دونوں ہتھیلیاں،  دونوں قدم۔

2.نماز کے صحیح ہونے کے لیے ستر کا چھپانا ضروری ہے، لہذا اگر گھٹنے ڈھکے ہوئے ہوں تو نماز ادا ہوجائے گی، تاہم شلوار وغیرہ کاٹخنوں سے اوپر آدھی پنڈلی تک ہونا سنت ہے،نیز شارٹس یا کچھے وغیرہ پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

3. اگر سجدے یا رکوع میں کولہے کا چوتھائی حصہ کھل جائے اور تین مرتبہ تسبیح کہنے کی مقدار کھلا رہے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔  

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ما تحت سرته) هو ما تحت الخط الذي يمر بالسرة ويدور على محيط بدنه بحيث يكون بعده عن مواقعه في جميع جوانبه على السواء، كذا في البرجندي. اهـ. إسماعيل؛ فالسرة ليست من العورة درر."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة،1/ 404، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"(ويمنع) حتى انعقادها (كشف ربع عضو) قدر أداء ركن بلا صنعه (من) عورة غليظة أو خفيفة على المعتمد (والغليظة قبل ودبر وما حولهما، والخفيفة ما عدا ذلك) من الرجل والمرأة، وتجمع بالأجزاء لو في عضو واحد، وإلا فبالقدر؛ فإن بلغ ربع أدناها كأذن منع.

(قوله: قدر أداء ركن) أي بسنته منية. قال شارحها: وذلك قدر ثلاث تسبيحات اهـ"

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة،1/ 408، ط: سعيد)

 روح المعانی میں ہے:

"وحمل بعضهم الزينة على لباس التجمل لأنه المتبادر منه ونسب للباقر رضي الله تعالى عنه،وروي عن الحسن السبط رضي الله تعالى عنه أنه كان إذا قام إلى الصلاة لبس أجود ثيابه فقيل له: يا ابن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم لم تلبس أجود ثيابك؟ فقال: إن الله تعالى جميل يحب الجمال فأتجمل لربي وهو يقول ‌خُذُوا ‌زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ فأحب أن ألبس أجمل ثيابي،ولا يخفى أن الأمر حينئذ لا يحمل على الوجوب لظهور أن هذا التزين مسنون لا واجب، وقيل: إن الآية على الاحتمال الأول تشير إلى سنية التجمل لأنها لما دلت على وجوب أخذ الزينة لستر العورة عند ذلك فهم منه في الجملة حسن التزين بلبس ما فيه حسن وجمال عنده."

(سورة الأعراف، الآية:31، ج:4، ص: 349، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں