بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سات تولہ سونا اور نقدی پر زکوۃ کا حکم


سوال

اگر  ایک آدمی تنخواہ  پر کام کرتا ہے اور  اس کے  پاس  سات تولے سونا بھی موجود ہے اور اسی تنخواہ سے گھر کے اخراجات پورے کرتا ہے،  لیکن اتنے میں اس کے پاس 50000 ہزار روپے رمضان میں حساب لگا کر جمع ہوچکے ہیں تو اس کے بارے میں زکوة کا کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ  جب مذکورہ شخص کے پاس سات تولہ سونے کے  ساتھ  بنیادی ضرورت سے زائد نقدی بھی ہے تو  مذکورہ شخص صاحبِ نصاب ہے، لہٰذا اس کے ذمے سالانہ زکوۃ فرض ہے، اور ادائیگی کا طریقہ  یہ  ہے کہ سات تولہ سونا اور نقدی وغیرہ کی کل مالیت معلوم کرکے ذمہ پر موجود قرض اور  بنیادی ضرورت کی رقم  (مثلاً رواں مہینے کے راشن اور یوٹیلیٹی بلز)  کو منہا کرنے کے بعدباقی ماندہ مجموعی مالیت  میں سے ڈھائی فیصد  بطورِ  زکاۃ ادا کرنا  لازم ہوگا۔ واضح رہے کہ زکاۃ کی واجب مقدار معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کل مالیت کو چالیس سے تقسیم کردیجیے، حاصل جواب، زکاۃ کی واجب مقدار ہوگا۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ اصولاً ماہانہ تنخواہ   کی بنیاد پر  زکاۃ واجب نہیں ہوتی، بلکہ زکاۃ کا سال پورا ہونے پر جو مال (نقدی، سونا، چاندی، مالِ تجارت) موجود ہو اور وہ ضرورت سے زائد ہو اس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے، اور تنخواہ میں سے جو رقم زکات کا سال پورا ہونے سے پہلے ذاتی اخراجات میں صرف ہوگئی، اس پر زکات واجب نہیں ہوتی۔

اور اگر مذکورہ شخص کے پاس پہلے صرف سات تولہ سونا تھا، اس کے علاوہ بچت میں ضرورت سے زائد رقم بالکل نہیں تھی، یعنی ماہانہ تنخواہ ہر ماہ ختم ہوجاتی تھی، تو یہ شخص صاحبِ نصاب نہیں تھا، اب رمضان میں اگر اس کے پاس یک مشت پچاس ہزار روپے آگئے اور یہ قرض اور واجب الادا اخراجات سے زائد ہیں تو یہ اس رمضان میں صاحبِ نصاب ہوگیا، اس پر آئندہ رمضان میں صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں زکات واجب ہوگی۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"وَلَوْ فَضَلَ مِنْ النِّصَابَيْنِ أَقَلُّ مِنْ أَرْبَعَةِ مَثَاقِيلَ، وَأَقَلُّ مِنْ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَإِنَّهُ تُضَمُّ إحْدَى الزِّيَادَتَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُتِمَّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا أَوْ أَرْبَعَةَ مَثَاقِيلَ ذَهَبًا كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَلَوْ ضَمَّ أَحَدَ النِّصَابَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُؤَدِّيَ كُلَّهُ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ مِنْ الْفِضَّةِ لَا بَأْسَ بِهِ لَكِنْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ التَّقْوِيمُ بِمَا هُوَ أَنْفَعُ لِلْفُقَرَاءِ قَدْرًا وَرَوَاجًا

الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ."

(الفصل الاول والثانى فى زكوة الذهب والفضة والعروض، ج:1، ص:179، ط:ايج ايم سعيد) 

فتاوی شامی میں ہے:

"و لیس في دور السکنی و ثیاب البدن و أثاث المنازل و دوابّ الرکوب و عبید الخدمة و سلاح الاستعمال زکاة؛ لأنها مشغولة بحاجته  الأصلیة ولیست بنامیة".

(کتاب الزکوۃ، ج:2،   ص:262، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں