بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سسر کا بہو سے جسمانی خدمت( پاؤں وغیرہ) دبوانے کا حکم


سوال

کیا سسر اپنی بہو یعنی بیٹے کی بیوی سے جسم کی کوئی خدمت لے سکتا ہے مثلاً (پیر دبوانا وغیرہ) اس حالت میں اگر سسر کو شہوت آجاۓ اگر چہ وہ کچھ کرے نہیں تو کیا اس سے نکاح پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں ؟

جواب

صورت  مسئولہ میں  اگر واقعۃً  بہو کا سسر کے پاؤں وغیرہ دباتے وقت سسر کو شہوت آ چکی تھی، یا  پہلے سے شہوت تھی اور بہو کے پاؤں دبانے سے اس میں مزید  اضافہ ہوگیا تھا اور پیر وغیرہ کے اوپر کوئی موٹا کپڑا نہیں تھا اور سسر کو انزال بھی نہیں ہوا تھا    اور  شوہر بھی عورت کی اس بات کی تصدیق کرتا ہے تو یہ عورت  اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی، اور شوہر پر لازم ہوگا  کہ بیوی کو زبان سے طلاق دے کر علیحدہ کردے۔اور اگرشوہر اس بات کی تصدیق نہیں کرتا یا سسر  انکاری ہو یا سسر کو اس دوران انزال ہوگیا تھا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔ 

 احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ سسر بہو سے جسمانی خدمت لینے  سے احتراز کرے  اور بہو کو بھی چاہیے کہ وہ  اپنے سسر کی جسمانی خدمت سے اجتناب کرے؛ کیوں کہ ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے بہو اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوسکتی ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ثم المسّ إنما یوجب حرمة المصاهرة إذا لم یکن بینهما ثوبٌ ، أما إذا کان بینهما ثوب فإن کان صفیقاً لا یجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك، وإن کان رقیقاً بحیث تصل حرارة الممسوس إلی یده تثبت، کذا في الذخیرة".

(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات، الباب الثاني في إيقاع الطلاق،ج: 1،  صفحہ: 375  ،ط:  دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن ( مطلقًا، والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما، وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته، به يفتى".

(فصل في المحرمات، كتاب النكاح، (3/33)، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج، وإن ‌صدقه ‌الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج."

(کتاب النکاح، الفصل الثالث، القسم الثانی المحرمات باالصهرية، ج:1، ص:276، ط:رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي فتح القدير وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ‌ظنه ‌صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك اهـ."

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات فی النکاح، ج:3، ص:107، ط:دار الکتاب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں