24روپے والی چیز 40 میں، 48 والی چیز 80 میں، 96 والی چیز 170 میں اور 200 والی چیز 350 میں بیچنا کیسا ہے؟
اصولی طور پر کاروبار میں نفع کی حد مقرر نہیں، دھوکا دیے بغیر نفع کی کوئی حد وصول کرسکتا ہے، البتہ بازاری قیمت سے غیر معمولی زیادہ قیمت وصول کرنا مکروہ ہے۔
فتاوی رشیدیہ میں ہے:
’’سوال: نفع لینا شرع میں کہاں تک جائز ہے؟
جواب: نفع جہاں تک چاہے لے، لیکن کسی کو دھوکا نہ دے‘‘۔
(فتاوی رشیدیہ، جواز اور حرمت کے مسائل 555 ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)
واضح رہے کہ غذائی بحران کی صورت میں حکومت کی طرف سے غذائی اجناس کی قیمت یا نفع کی شرح مقرر کرنے کی گنجائش ہے، غذا کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمت، نیز جب غذائی بحران نہ ہو تو غذا سے متعلقہ اشیاء کی قیمت بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے جو بھی طے ہوجائے جائز ہے، اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ البتہ جہاں کسی چیز کی شدید ضرورت ہو، اور بازار میں اس چیز کے نہ ہونے سے انسانی زندگی متاثر ہوتی ہو اور بیچنے والا اس کی متعارف قیمت سے بہت زیادہ وصول کرے یا اس چیز کی قیمتِ خرید کے نصف کے برابر یا اس سے زیادہ نفع رکھے تو فقہاءِ کرام نے بعض صورتوں میں اسے غبنِ فاحش کے تحت داخل کرکے ممنوع قرار دیا ہے۔فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100146
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن