بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سستا ویزہ ملنے کے بعد اپنا نفع رکھ کر بیچنا


سوال

 کیا میں کسی دفتر سے ورک ویزہ لے کر اس کے ساتھ   اپنا فائدہ رکھ کر  آگےفروخت کر سکتا ہوں؟  مثلاً میں نے دفتر والے یا سعودی کفیل سے  ویزہ  5  ہزار کا لیا اور میں نے پاکستان سے آنے والے شخص کو 6 ہزار کا دیا تو کیا یہ جائز ہے راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح ہے کہ ویزہ محض ایک حق ِ مجرد ہے، اور  حقوقِ مجردہ کی خرید وفروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ اگر کسی  شخص کو ویزہ حاصل کرنے کے لیے کچھ رقم  خرچ کرنی پڑے، تو اس صورت میں یہ شخص اپنی خرچ شدہ رقم بتلا کر کسی دوسرے شخص کو ویزہ دےاور اس سے اتنی ہی رقم وصول کر سکتاہے،خرچ کردہ رقم پر اپنا نفع رکھ کر  زیادتی کے ساتھ   دینا جائز نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ  كوبغیر کسی بھاگ دوڑ کے کسی کفیل یا دفتر والے ویزہ پانچ ہزار میں دیتے ہیں، تو ایسی صورت میں  کسی پاکستان والے شخص کو  یہی ویزہ  چھ ہزار میں فروخت کرنا جائز نہیں ہے،اور اگر آپ کو یہ ويزه حاصل کرنے میں رقم کے علاوہ کچھ بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہو (جو قابل ِ اجرت عمل ہو)،تو ایسی صورت میں آپ  ویزہ دینے والے کو اپنی خرچ کردہ رقم اور اس کے ساتھ اپنے کام کی متعينه اجرت    الگ الگ بتا ديں اور سامنے والا شخص اس کو قبول کرلے، تو ایسی صورت میں اصل رقم سے زائد ( عمل كي طے شده اجرت)لے کر ویزہ دینا جائز ہے، مثلاً پاکستان میں پاسپورٹ میں ویزہ لگانے کےلئے ایمبیسی میں آناجانا  پڑتا ہے تو اس میں آنے جانے اور پاسپورٹ میں ویزہ لگاکر دینے کی اجرت لے سکتا ہے، اور اگر ایسا کوئی کام نہیں کرتا بلکہ صرف ویزا فروخت کرتا ہے تو زائد رقم لینا جائز نہیں ہوگا۔

الاشباہ والنظائر میں ہے :

’’الحقوق المجردة لايجوز الاعتياض عنها ‘‘.

 (كتاب البيوع، بيع المعدوم باطل إلا فيما يستجره الإنسان من البقال، ص:178، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

’’وفيها: وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف‘‘.

( كتاب البيوع،ج:4، ص:518،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(ويضم) البائع (إلى رأس المال) (أجر القصار والصبغ) ... (ويقول: قام علي بكذا، ولايقول: اشتريته)؛ لأنه كذب، وكذا إذا قوم الموروث ونحوه أو باع برقمه لو صادقا في الرقم فتح".

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، ج:5، ص:135، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں