بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس سے تعلقات اور اس کو کھانا کھلانے سے حرمت مصاہرت کا حکم


سوال

اگر کوئی داماد اپنی ساس کو پسند کرتا ہے وہ دونوں روٹی کھا رہے ہوں اور اس کا داماد اس کے منہ میں چمچ کے ذریعے  کچھ کھلانے کی غرض سے ان کا ہاتھ ہٹاکر  اس کے منہ میں  چمچ دیں، لیکن اس کا ہاتھ کوئی اور غرض سے نہ پکڑا ہو،صرف اس لیے کہ یہ کھانا یہ کھالیں، اور ایک دم  ہاتھ چھوڑ دیں، اور اس کے بعد اس کا نفس کھڑا ہوجائے تو اس سے نکاح تو نہیں ٹوٹ گیا۔

 

جواب

انسانوں کے درمیان  تعلقات اور محرم رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ،  ایک  نسب اور خون  کے رشتے، اور دوسرے  سسرالی  رشتے،  اس سسرالی رشتے کو  ”مصاہرت“  کہتے ہیں ، جیسے: سسر، ساس، اور ان کے اصول یعنی  ان کا پدری اور مادری سلسلہ، اور بیوی کی بیٹی، شوہر کا بیٹا وغیرہ، ان رشتہ داروں سے حرمت کو”حرمتِ مصاہرت“  کہا جاتا ہے، اسلام نے  نسب اور مصاہرت دونوں قسم کے رشتوں کے احترام کا حکم دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا} [الفرقان: 54]

 ترجمہ:”اللہ وہ ذات ہے  جس نے پانی سے انسان کو بنایا اور پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا“۔

 اور اللہ پاک نے یہ تذکرہ  احسان شمار کرنے کی جگہ پر  کیا ہے جو ان رشتوں کی عظمت اور قابلِ احترام ہونے کی دلیل ہے،  جس طرح اپنے والدین سے حرمت  اور احترام کا رشتہ ہے، اسی طرح ساس سسر کے ساتھ بھی احترام کا رشتہ ہے۔

لہذا داماد کا   اپنی ساس  سے اس طرح   کا تعلق رکھنا   ناجائز ہے، ساس ، داماد کی محرم ہے،  اس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے۔اس کو شہوت کے ساتھ چھونا یا دیکھنا بھی ناجائز اور حرام ہے، اگر ساس کو  (شرائط معتبرہ کے ساتھ )شہوت کے ساتھ چھولیا تو اس سے  بیوی سے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔

چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت  ہونے کی شرائط سے متعلق تفصیل کے لیے درج ذیل  فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

منگیتر کی والدہ سے ملنا اور ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت کا حکم

باقی صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے ساس کا  ہاتھ ہٹا کر اس کے منہ میں چمچ سے کھانے کا نوالہ دیا اور فورًا الگ ہوگیا اور  اس  وقت شہوت نہیں تھی ، بعد میں  انتشار ہونے لگاتو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔ البتہ اس سلسلے میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والعبرة إلخ) قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لاتحرم عليه. اهـ.وكذلك في النظر كما في البحر، فلو اشتهى بعدما غض بصره لاتحرم. قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها؛ لما في الفيض لو نظر إلى فرج بنته بلا شهوة فتمنى جاريةً مثلها فوقعت له الشهوة على البنت تثبت الحرمة، وإن وقعت على من تمناها فلا"

 (3/ 32، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

"والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لاتتعلق به الحرمة، وحد الشهوة أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارًا إن كانت منتشرةً حتى قيل: إن من انتشرت آلته وطلب امرأته وأولجها بين فخذي ابنتها لاتحرم عليه أمها ما لم تزدد انتشارًا، و وجود الشهوة من أحدهما يكفي".

(2/ 107، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، القاهرة)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144207200637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں