بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کے ہاتھ کے ساتھ ہاتھ لگنے سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

میں حرمت مصاہرت والے معاملے میں بہت الجھ گیا ہوں کوئی بھی کام کروں، یہی بات دماغ میں ہوتی ہے، میں نے اپنی ساس کو کسی کام کے لیے پیسے دینے تھے ان کو پیسے دیتے ہوئے،  مجھے شک ہوا کہیں میرا ھاتھ انکے ہاتھ کے ساتھ لگا ہو اور شہوت بھی آئی ہو،  پھر میری ساس کی والدہ نے میرے ہاتھ کو چوما،  میں ٹینشن میں پڑ گیا،  کہیں شہوت نہ آئی ہو،  میں اپنی سالی کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا میں اور وہ ساتھ بیٹھی تھی،  مجھے قطروں کا مسئلہ بھی ہے، اور اس وقت مجھے پیشاب بھی کافی زیادہ آیا ہوا تھا ،اسکے ساتھ بیٹھتے ہی مجھے قطرے محسوس ہوۓ ہماری جوائنٹ فیملی ہے، اور یہ سب باتیں عام ہیں ان سے بچنا نا ممکن ہے،  اب میں اس پریشانی میں مبتلا ہوں میں کسی کے ساتھ بیٹھوں تب بھی میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ دور رہوں لیکن کچھ نہ کچھ ایسا ہو ہی جاتا ہے میری ایسی ویسی کوئی نیت نہیں ہوتی، صرف یہ بات ہر وقت ذہن میں ہوتی ہے، اور اس وھم کی وجہ سے کبھی کبھار عضو میں حرکت اور کچھ احساس بھی محسوس ہوتا ہے، حالانکہ میری نیت ایسی نہیں ہوتی کیا ایسے محسوس ہونے سے بھی حرمت ہوتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ساس کے ہاتھ کے ساتھ محض ہاتھ لگنے سےیا ساس کی والدہ کےمحض ہاتھ کے چومنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی جبکہ شہوت یقینی بھی نہیں ہے،ایسے کسی کے ساتھ بھی بیٹھنے سےسے مختلف خیالات کا  آنا وسوسوں کی بیماری ہے، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، اور دل میں جگہ نہ دی جائے، ان کے مقتضی پر عمل یا لوگوں کے سامنے ان کا اظہار نہ ہو، بلکہ ان کا خیال جھڑک کر ذکر اللہ کی کثرت کا اہتمام کرنا چاہیے، اور ساتھ ساتھ درجِ ذیل اعمال کریں:

(1) أعُوذُ بِالله (2) اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه کا ورد کرے۔ (3) هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم (4) نیز رَّبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ أَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ کا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة. ولو مس شعرها بشهوة إن مس ما اتصل برأسها تثبت وإن مس ما استرسل لا يثبت. والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لا تتعلق به الحرمة. وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي. وبه يفتى، ... هذا الحد إذا كان شابا قادرا على الجماع فإن كان شيخا أو عنينا فحد الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركا قبل ذلك ويزداد الاشتهاء إن كان متحركا، كذا في المحيط. وحد الشهوة في النساء والمجبوب هو الاشتهاء بالقلب والتلذذ به إن لم يكن وإن كان فازدياده، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة. ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها."

(کتاب النکاح، الباب الثالث، ج:1، ص:374/375، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه".

(کتاب النکاح، فصل فى المحرمات، ج:3، ص:33، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144309100947

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں