بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کو زکاۃ دینے کو حکم


سوال

کیا ساس کو زکاۃ دے سکتے ہیں ؟جب کہ وہ بیوہ ہیں ،ایک بیٹا دبئی میں ہے ،جس کی آمدن بہت کم ہونے کی وجہ سے گھر کا خرچہ مشکل سے چلتا ہے ،اور ایک بیٹا آوارہ ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ  سائل کی ساس زکوۃ کی  مستحق ہیں (یعنی  ان کی ملکیت میں  ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے بقدر رقم  یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنی مالیت کا  سامان موجود نہیں ہے  اور وہ  ہاشمی یعنی سید یا عباسی وغیرہ بھی نہیں ہیں)  تو  ان کو زکاۃ  دینا جائز ہے۔

سنن ترمذی میں ہے :

"عن ‌حفصة بنت سيرين،عن ‌الرباب،عن عمها ‌سلمان بن عامر يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: ‌الصدقة ‌على ‌المسكين صدقة، وهي على ذي الرحم ثنتان:صدقةوصلة."

(باب ماجاءفي الصدقةعلي ذي القرابة،ج :2،ص:39،ط :دارالغربالاسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے :

"‌ويجوز ‌دفع ‌الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين مسان الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم."

(كتاب الزكاة،فصل حولان الحول هل هومن شرائط اداءالزكاة،ج :2،ص :50،ط :دارالكتب العلمىة)

فتاوی شامی میں ہے :

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."

(كتاب الزكاه،باب مصرف الزكاة والعشر،ج :2،ص :341،ط :سعيد)

ہدایہ شریف میں ہے :

"ويجوز ‌دفعها إلى من يملك أقل من ذلك وإن كان صحيحا مكتسبا " لأنه فقير والفقراء هم المصارف ولأن حقيقة الحاجة لا يوقف عليها فأدير الحكم على دليلها وهو فقد النصاب."

(كتاب الزكاة ،باب من يجوز الدفع إليه الصدقة ومن لايجوز،ج :1،ص :112،ط :دار إحياءالتراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں