بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کی نافرمانی کرنے والی بیوی کے ساتھ کیسے رہیں؟


سوال

لڑکے کی ماں بہت اچھی ہے، لڑکا بھی بہت نیک ہے، لیکن جو لڑکے کی بیوی ہے وہ لڑکے کو اور اس کی ماں (یعنی اپنی ساس) کو بہت تنگ کرتی ہے، اور اب ان کے  دو لڑکے بھی ہیں، تو طلاق بھی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے کوئی بہترین عمل بتائیں!

جواب

 ازدواجی زندگی پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،  نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والیوں  کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں۔ دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا، ارشاد نبوی ہے:  (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اسی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنا طبعی تقاضا پورا کرنے کے لیے بلائے تو بیوی انکار نہ کرے، اس سلسلے میں حدیثِ مبارک میں واضح تعلیمات موجود ہیں، چنانچہ ارشادِ مباک ہے: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیےبلائے اور بیوی انکار کرے، جس پر شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، دوسری روایت میں ہے: جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تو وہ اس کے پاس چلی جائے اگر چہ روٹی پکانے کے لیے تنور پر کھڑی ہو۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کی  بیوی کو چاہیے کہ وہ تمام جائز امور میں اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور او اپنے شوہر کو پریشان کرنے سے اجتناب کرے۔ شوہر کو چاہیے کہ بیوی کو ان احادیث کی تعلیم دے، یہ احادیثِ مبارکہ ذکر کرکے حکمت وبصیرت کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرے۔ طلاق مسائل کا حل نہیں ہے، اس لیے اولاً خود نرمی اور حکمت سے سمجھانے کی کوشش کرے، اگر شوہر سے نہیں سمجھتی تو جس محرم رشتے دار سے فہمائش کی توقع ہو، اسے مسئلہ بتاکر نصیحت کروائیں، اگر اخلاص سے کوشش کی جائے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ موافقت پیدا ہوجائے گی۔

اسی طرح عورت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اپنی ساس کو والدہ کی مانند سمجھے، اور ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھ کر اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:

’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی‘‘۔

(بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

"وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه». رواه الترمذي والدارمي". 

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي". 

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح» . متفق عليه. وفي رواية لهما قال: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطًا عليها حتى يرضى عنها»".

 (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 280 ط: قديمي)

"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور». رواه الترمذي".

(مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں