بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کے ساتھ حرمت مصاہرت کا تفصیلی حکم


سوال

ساس کے ساتھ ناجائز تعلقات کی وجہ سے حرمت مصاہرت کا حکم   بیان کیجئے؟

:فتوی نمبر:144408101902 اس مذکورہ مسئلے میں لڑکی کو ابتداءًکتنی طلاقیں ہوجاتی ہیں ؟اور عدت گزرنےکے ساتھ کتنی طلاق ہوجاتی ہے؟

جواب

(1)ساس  کے ساتھ ناجائز تعلقات سے حرمت ِمصاہرت ثابت ہوتی ہے، اور بیوی ہمیشہ کے لیےاس شخص پر حرام ہوجاتی ہے اس شخص کے لیے ضروری ہے،کہ اپنی بیوی کو طلاق یا چھوڑدیا کے الفاظ استعمال کرکے آزاد کردے۔

(2):فتوی 144408101902.. کی وضاحت یہ ہے،کہ یاد رہے حرمت مصاہرت کی وجہ سے نکاح فاسد ہوجاتی ہے اور بیوی حرام ہوجاتی ہے،البتہ اس سےطلاق  واقع نہیں ہوتی ہے چونکہ دونوں کے درمیان متارکت   اور جدائی ہونا لازم ہے،اور جدائی کے لئےالفاظ جدائی ضروری ہے،شوہرطلاق دیدے یا جدائیگی  کے الفاظ کہہ دے،مثلاًمیں نے تمہیں چھوڑدیاوغیرہ،یہ الفاظ محض دونوں  میں جدائی کے لیے ہیں ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی یہاں تک اگر  مذکورہ شخص طلاق کے الفاظ استعمال کرکےتب بھی اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی ،جس کے بعد دوبارہ نکاح کی کوئی صورت بھی نہیں رہی ،اس کے بعد بیوی پر عدت گزارنا لازم ہوتا ہے ،

نوٹ:عدت گزرنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

 لہذا  صورت ِ مسئولہ میں بیوی پر نہ اولاًاورنہ عدت گزرنے سے   کوئی طلاق واقع ہوئی ہے ،البتہ حرمت مصاہرت کی وجہ سے بیوی شوہر پر ہمیشہ کیلئے حرام ہوچکی ہے ،دونوں کا کبھی بھی نکاح جائز نہیں ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"ومن مسته امرأة بشهوة حرمت عليه أمها وبنته."

(فتح القدیر ج3 ص 221 دارالفکر لبنان)

در مختار میں ہے:

"(قبل أم امرأته....حرمت) عليه (امرأته ما لم يظهر عدم الشهوة) (وفي المس لا) تحرم (ما لم تعلم الشهوة)."

 ( کتاب النکاح ، ج :3 ،ص: 35 ، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقًا."

( کتاب النکاح، ج:3 ،ص:33 ، ط: سعید)

وفیه أيضاً:

"وفي الدر  وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

 "(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ)قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ.(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

(کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،ج:3،ص:37،ط:سعید)

وفیه أيضاً:

"المتاركة في الفاسد ..............والطلاق فيه متاركة لكن لا ينقص به عدد الطلاق." 

(كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد، ج:3، ص:132، ط:ایچ ایم سعید)‌

وفيه أيضاً:

"والطلاق ‌فيه لا ينقص عددا لأنه متاركة فلو طلقها ثلاثا لا يقع شيء."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة،ج:3، ص:409، ْ:سعيد)

اللباب شرح الكتاب میں ہے:

"الفاسد لا توجب العدة، ‌والطلاق ‌فيه لا ينقص العدد، لأنه فسخ، جوهرة."

(كتاب العدة،ج:3، ص:85، ط:المكتبة العلمية)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وأنه لا يقع ‌الطلاق في ‌النكاح ‌الفاسد."

(کتاب الأیمان، باب الیمین فی العتق، ج:9، ص:31، ط:دارالمعرفه)

تجرید للقدوری میں ہے:

"وأما ‌الطلاق فهو موضوع لرفع الاستباحة، والنكاح الفاسد لا يفيد الإباحة فلا يثبت ‌الطلاق."

(مسالۃ:اذاقبض المبیع فی البیع الفاسد، ج:5، ص:2576، ط:دار السلام)

تبيين الحقائق میں ہے۔

"ولا يتحقق الطلاق في النكاح الفاسد بل هو متاركة فيه، ولا تتحقق ‌المتاركة إلا بالقول بأن يقول تاركتك أو تاركتها أو خليت سبيلك أو خليتها، وعلم غير المتارك ليس بشرط لصحة ‌المتاركة على الأصح كما في الصحيح، وإنكار النكاح إن كان بحضرتها فهو متاركة وإلا فلا روي ذلك."

(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، كتاب النكاح، باب المهر، ج:2، ص:153، ط:الكبرى الأميرية)

البحر الرائق میں ہے۔

"وفي البزازية وبثبوت حرمة ‌المصاهرة وحرمة الرضاع لا يرتفع بهما النكاح حتى لا تملك المرأة التزوج بزوج آخر إلا بعد ‌المتاركة."

(البحرالرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الرضاع، أرضعت ضرتها، ج:3، ص:247، ط: دارالكتاب الإسلامي)

مجمع الأنهر  شرح ملتقى الأبحر میں ہے۔

"وفي المنح: والتفريق في هذا إما بتفريق القاضي أو بمتاركة الزوج ولا يتحقق الطلاق في النكاح الفاسد بل هو متاركة فيه ولا يتحقق ‌المتاركة إلا بالقول في المدخول بها."

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر،‌‌كتاب النكاح، باب المهر، فصل هل يجب المهر في عقد فاسد،  ج:1،ص:356، ط:دار إحياء التراث العربی)

واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں