بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کے اپنے بہوکو گالی دینے کا حکم


سوال

 ساس کا اپنی بہو کو  چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کے والدین کو گالی دینا  کیسا ہے؟ دینی اعتبار سے راہ نمائی فرمادیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ  ایک مسلمان کا دوسرے مسلما ن  کو گالی دینا   شرعاً ناجائز اور رسول ﷺ   نے اسے گناہ کبیرہ اور منافق کی نشانی قراردی ہے ،ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتاکہ وہ جس زبان سے  اللہ کریم کانام اور قرآن ِ مجید کی تلاوت کرتاہو وہ اس سے  گالم گلوچ اور بے حیائی پر مشتمل  گفتگوکرے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ساس کا اپنی بہو کو معمولی معمولی باتوں پر اس کے والدین کو گالی دینا  شرعاً نہایت قبیح عمل ہے ،جس سے احتراز کرنا ضروری ہے،کوئی والدین اپنی اولاد کی تربیت میں دانستہ طور پر کوتاہی نہیں کرتے ہیں، البتہ اس میں ناسمجھی یا مغالطہ ہونا بعید نہیں، لہٰذاساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو  کے ساتھ  اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور اگر کبھی اس سے کوتاہی ہو تو عفودرگزر سے کام لے،اس  ساتھ ساتھ بہو کو بھی چاہیے  کہ وہ اپنی ساس  کے ساتھ اس قسم کارویہ برتے کہ  اسے گالی دینے کا موقع ہی نہ ملے۔

بخاری شریف میں ہے:

 حدثنا محمد بن عرعرة قال: حدثنا شعبة، عن زبيد قال: سألت أبا وائل عن المرجئة فقال: حدثني عبد الله: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ‌سباب ‌المسلم فسوق وقتاله كفر."

(ج:1، ص: 19، رقم الحدیث: 48، ط:دارطوق النجاة)

مسلم شریف میں ہے:

حدثنا يحيى بن أيوب، وقتيبة بن سعيد - واللفظ ليحيى - قالا: حدثنا إسماعيل بن جعفر قال: أخبرني أبو سهيل نافع بن مالك بن أبي عامر ، عن أبيه ، عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "آية ‌المنافق ‌ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان."

(ج:1، ص: 56، رقم الحدیث:59، ط: دارطوق النجاة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں