شادی شدہ بیٹی ساتھ رہتی ہے، کھانا پینا ساتھ ہے ، بہو اگر کبھی ساس کو ناشتہ نہ دے اور اس پر ساس بہو کی ماں کی تربیت پر انگلی اٹھائے تو کیا یہ جائز ہے ؟جب کہ بیٹی ساتھ رہتی ہے اور بیٹی کے شوہر کی طرف سے بھی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔
میاں بیوی کا باہمی رشتہ اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت اور ہم دردی و ایثار کے جذبے سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے، کچھ چیزیں بیوی کے ذمے لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمے لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانتًا اور اخلاقاً یہ چیزیں دونوں کی ایک دوسرے پر لازم ہیں؛ لہذا عورت کے ذمے اپنی ساس اور سسر کی خدمت اگرچہ شرعاً وقضاءً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر اس کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ساس اور سسر اُس کے شوہر کے ماں باپ ہیں، لہٰذا جس طرح وہ اَپنے ماں باپ کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کے ماں باپ کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔
لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور خدمت نہ کرنے کی وجہ سے بہو کے ساتھ ناروا سلوک کرنا، طعنہ دینا یا اس کے والدین کو برا بھلا کہنا شرعًا جائز نہیں ہے،(بلکہ خود ساس سسر کے بیٹے اور بیٹیوں پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے) یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200404
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن