بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کا بہوکومنحوس کہنا اور اس کے والدین کو برا بھلا کہنا


سوال

 بہن کی ساس بہن کو منحوس، نفسیاتی کہتی  ہے  اور  ذہنی تشدد کا شکار بناتی رہتی ہے۔  ساس بہن کے ماں باپ کو برا بھلا بولتی رہتی ہے۔ ہم کیا کریں، شوہر اپنے والدین کو کچھ نہیں بولتا۔ بہن پریشان ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ساس اور بہو دونوں کو تحمل مزاجی اور برداشت سے کام لینا چاہیے،سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ  معاشرت  اور ہم دردی و ایثار  کے  جذبے  سے  ہی چل سکتا ہے،کچھ ذمہ داریاں عورت کی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں شوہر کی ہیں، عورت کے ذمے  اپنی  ساس اور سسر کی خدمت  اگرچہ شرعاً  وقضاءً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر اس  کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ساس اور سسر  اُس کے شوہر کے ماں  باپ ہیں، لہٰذا جس طرح  وہ اَپنے ماں باپ  کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کے ماں باپ کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور خدمت نہ کرنے کی وجہ سے  بہو  کے ساتھ ناروا سلوک کرنا، طعنہ دینا یا اس کے والدین کو برا بھلا کہنا شرعًا جائز نہیں ہے،(بلکہ خود ساس سسر کے بیٹے اور بیٹیوں پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے)  یعنی دونوں طرف   اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ  وہ اپنی بہو کوگالیاں دینے اور برابھلا کہنے کے بجائے اپنی بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔ 

نیز ایسی صورت حال میں شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت وغیرہ کے لیے کچھ وقت ضرور نکالے، اوروالدہ کو تنہائی میں یہ سمجھائے کہ ہم آپ کے خدمت گار ہیں، نیز ان کی اہلیہ بھی ان کی والدہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتی ہیں، ان کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتی ہیں، لہذا والدہ ان کی اہلیہ کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئے، اور طعن و تشنیع سے اجتناب برتے، گالم گلوچ شرعاً ناجائز ہیں، ان سے بھی اجتناب کرے ۔ نیز شوہر ساتھ ساتھ اپنی اہلیہ کو بھی سمجھا دے کہ میری دلی توجہ مکمل تمہاری طرف ہی ہے، البتہ والدہ کا حق ہے، نیز ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے خلاف ہوجائیں یا کچھ سوچیں یا بد دعا دیں تو میں ان کو کچھ وقت دے کر ان کی دعائیں لے لوں، اس سے مجھے اور میری نسلوں کا ہی فائدہ ہے، اگر نباہ باہم مشکل ہو تو شوہر بیوی کو الگ رہائش دے۔

باری تعالی کاارشاد ہے :

"وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسَىٰٓ أَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـئًا وَّيَجْعَلَ ٱللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا"(سورۃ النساء،آيت:19)

ترجمہ:"اور عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرواور اللہ تعالی اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے ۔"

(بیان القرآن ،339/1،رحمانیہ)

حديث شريف ميں هے : 

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم ‌خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي ."

(مشکوۃ شریف،کتاب النکاح، 971/2،المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل (بیوی)بچوں ،اقرباءاور خدمت گاروں کے حق میں بہترین ہو اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں ۔"

(مظاہر الحق ،کتاب النکاح ،365/3،دار الاشعات)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري ميں هے :

" وروى الطَّحَاوِيّ عَن عَليّ بن معبد، قَالَ: حَدثنَا يزِيد بن هَارُون قَالَ: أخبرنَا همام ابْن يحيى عَن قَتَادَة عَن أبي حسان، قَالَ: دخل رجلَانِ من بني عَامر على عَائِشَة، فأخبراها أَن أَبَا هُرَيْرَة يحدث عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنه قَالَ: (الطَّيرَة فِي الْمَرْأَة وَالدَّار وَالْفرس)، فَغضِبت وطارت شقة مِنْهَا فِي السَّمَاء وشقة فِي الأَرْض، فَقَالَت: وَالَّذِي نزل الْقُرْآن على مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مَا قَالَه رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قطّ، إِنَّمَا قَالَ: (إِن أهل الْجَاهِلِيَّة كَانُوا يَتَطَيَّرُونَ من ذَلِك)، فَأخْبرت عَائِشَة أَن ذَلِك القَوْل كَانَ من النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حِكَايَةً عَن أهل الْجَاهِلِيَّة، لَا أَنه عِنْده كَذَلِك."

(باب مايذكر شؤم الفرس ،14/ 150،دار إحياء التراث العربي)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144403100818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں