بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ساس کا بہو پر جادو کا الزام لگانا


سوال

میری بیوی پہلے کہتی تھی کہ  دو جیٹھانیوں اور ایک ماموں زاد بہن نے ہمارے پورے گھر پر جادو کروایا ہے، اس وجہ سے سب کی طبیعت خراب رہتی ہے، بڑا بیٹا ہر بات پر انکار کرتا ، اس کا ہم نے 2003ء سے 2011ء تک ہر جگہ  نامور علماء سے روحانی  علاج کروایا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، ایک سال قبل درمیانے بیٹے کی شادی سادگی سے کی، اب بیوی کہتی ہے کہ یہ جادو بہو کروارہی ہے، گھر میں مجھے رکھو یا بہو کو، یا بہو قرآن اٹھائے کہ وہ جادو نہیں کروارہی ہے، اس پر میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ تم اللہ کی قسم کہاکر یا قرآن اٹھاکر اس کی تصدیق کر سکتی ہو کہ جادو بہو کروا رہی ہے،اس پر بیوی قسم کھانے یا قرآن اٹھانے سے انکار کرتی ہے، اور کہتی ہے کہ مجھے محسوس ہوتا ہے ، اشارے ملتے ہیں ، جو مجھے نظر آتا ہے، وہ تم  میں تقوی نہ ہونے کی بنا پر تم کو  نظر نہیں آتا،   اب پوچھنا یہ ہے کہ

(1) میرا درمیانہ بیٹا اور میں  اپنی بیوی کا نفسیاتی ، ذہنی علاج کروا نا چاہتے  ہیں،  لیکن میری بیوی علاج نہیں کرتی،  کیا اس صورت میں میری بیوی کا علاج سے انکار کرنے سے ہم گناہ گار ہوں گے؟

(2)میری بیوی بہو کو زور زور سے جادوگرنی بہو، جادوگرنی بہو کہتی ہے( لیکن بہو  اس کو جواب نہیں دیتی، بیوی اگر زیادہ کہے تو بہو رونا شروع کر دیتی ہے) اور   بیٹے کے مطابق دو مرتبہ کمرے میں گھس کر بازو سے پکڑکر بہو کو مارا ہے اور میری بیوی کہتی ہے کہ صرف جادو گرنی کہا ہے، جب میری بیوی اس قسم کی حرکت کرتی ہے، اس سے روکنے کے لیے  بیٹا محض دھمکانے کے لیے کہتا ہے کہ ابھی پولیس کو فون کرتا ہوں، کیا بیٹے کا محض ڈرانے کے لیے یا حقیقۃ پولیس کو بلوانا ظلم تو نہیں ہے؟

(3)میرا ایک فلیٹ ہے، جس میں ہم سب رہتے ہیں ، کبھی میرا بڑا بیٹا اور کبھی میری بیوی اس کو  فروخت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس کو بیچ کر سب کو ان کا حصہ دے کر علیحدہ کرلیا جائے، اگر میں اس کو فرخت کردوں تو فی حصہ 14 سے 15 لاکھ روپے بنے گا، دوبارہ اس طرح کا فلیٹ ملنا مشکل ہے، اور نہ میری قلیل آمدن اس کی اجازت دیتی ہے کہ میں دوسرا فلیٹ یا مکان خرید سکوں، اور میں بطور باپ اور شوہر کے خاندان کا شیرازہ بکھیر کر اس طرح نہیں کرنا چاہتا، تو کیا یہ مطالبہ ماننا مجھ پر لازم ہے؟

(4)شرعی طور پر ایسا راستہ بتادیں کہ جس سے  بیوی، شوہر، بہو بیٹا اور گھر کے دیگر افراد    اور گھر کا ماحول پر سکون ہوجائے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی پر بلا ثبوتِ شرعی الزام لگانا نا جائز اور حرام ہے، سائل کی بیوی کو چاہیے کہ  بغیر ثبوت ِ شرعی کے محض اپنے گمان کی بنیاد پر اس قسم کے الزامات سے پرہیز کرے۔ 

(1) سائل کی بیوی  کا علاج سے انکار کرنے سے سائل اور اس کا بیٹا  گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ حکمت اور تدبر کے ساتھ سائل اپنی بیوی کو علاج کے لیے راضی کرنے کی کوشش کرے۔یاخفیہ طریقہ سے اپنے طور پر اس کا علاج کرلیں ،کرالیں۔

(2)ظلم سے باز رکھنے لیے سائل کے بیٹے کا محض پولیس کو بلانے کی دھمکی دینا درست ہے، البتہ حقیقۃ پولیس کو بلوانا مناسب نہیں ہے، گھر کے معاملات کو پولیس اور تھانوں میں لے جانا مناسب نہیں ہے۔

(3)واضح رہے کہ انسان اپنی حیات میں اپنی مملکوکہ جائیداد کا مالک ہوتا ہے ، وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرنے میں خودمختار ہے، لہذا سائل اپنی زندگی میں اپنی تمام  جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ  کا تن تنہا خود مالک ہے، کسی کا کوئی حق اور حصہ نہیں  اور ہی کسی کو جائیداد کی تقسیم کے مطالبہ کا حق ہے، لہذا سائل پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیوی کے مطالبہ پر مکان فروخت کردے، بلکہ ان کو نفع و نقصان بیچنے کا بتلاکر مطمئن کرکے رہیں۔

(4)سائل اور اس کے گھر والوں کو چاہیے کہ  فرائض اور واجبات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ مسنون دعاؤں اور  اتباعِ سنت کا خوب اہتمام کریں،  مغرب یا عشاء کے بعد گھر کے تمام افراد بیٹھ کر تین سو تیرہ مرتبہ   آخری دونوں سورتیں ( معوذتین ) پڑھ کر دعا کیا کریں، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔

قرآنِ کریم میں ہے:

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَاناً وَإِثْماً مُبِيناً (58)

(سورۃ الاَحزاب، الآیة:58)

ترجمہ:

اور جو لوگ ایمان والے مردوں کو اور ایمان والی عورتوں کوبدوں اس کےکہ انہوں نے کچھ کیا ہو، ایذاء پہنچاتے ہیں ، تو وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا بارلیتے ہیں۔

(از  بیان القرآن)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(ولا تأتوا ببهتان) : الباء للتعدية وهو الكذب الذي يبهت سامعه، المراد به القذف (تفترونه) أي تختلقونه وتخترعونه صفة ‌بهتان (بين أيديكم وأرجلكم) أي من عند أنفسكم، وعبر بهما عن الذات والنفس؛ لأن معظم الأفعال تزاول وتعالج باليد والرجل، وقيل: معناه: لا تبهتوا الناس بالعيوب كفاحا وشفاها كي لا يشاجر بعضكم بعضا، كما يقال: فعلت هذا بين يديك أي بحضرتك، وهذا النوع أشد البهت، أو لا تنسبوه مبنيا على ظن فاسد وغير مبطن من ضمائركم وقلوبكم التي هي بين أيديكم وأرجلكم."

(كتاب الإيمان، ج:1، ص:91، ط:دار الفكر، بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والكذب محظور إلا في القتال للخدعة وفي الصلح بين اثنين وفي إرضاء الأهل وفي دفع الظالم عن ‌الظلم، ويكره التعريض بالكذب إلا لحاجة كقولك لرجل كل فيقول أكلت يعني أمس فإنه كذب كذا في خزانة المفتين."

(كتاب الكراهية، الباب السابع عشر في الغناء واللهو وسائر المعاصي والأمر بالمعروف، ج:5، ص:352، ط:دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضاً:

"(وأما حكمها) فانقطاع الخصومة وانفصال المشاجرة بينهما حتى لا تسمع دعوى المدعي بعد ذلك إذا لم تكن له بينة قال الحسن بن زياد عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - إذا شك لرجل فيما يدعي عليه فينبغي له أن يرضي خصمه ولا يعجل بيمنه ويصالحه وإن كان في شبهة ينظر إن كان أكبر رأيه أن دعواه حق فلا يسعه أن يحلف وإن كان أكبر رأيه أن دعواه باطلة يسعه أن يحلف هكذا في محيط السرخسي الاستحلاف يجري في الدعاوى الصحيحة دون فاسدتها كذا في الفصول العمادية فإن صحت الدعوى سأل المدعى عليه عنها فإن أقر أو أنكر فبرهن المدعي قضي عليه وإلا حلف بطلبه كذا في كنز الدقائق.إذا توجهت ‌اليمين ‌على المنكر إن شاء حلف إن كان صادقا وإن شاء فدى يمينه بالمال كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الدعوى، الباب الثالث في اليمين ، الفصل الأول في الاستحلاف والنكول، ج:4، ص:13، ط:دار الفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله كما لا يلزمه مداواتها) أي إتيانه لها بدواء المرض ولا ‌أجرة ‌الطبيب ولا الفصد ولا الحجامة هندية عن السراج."

(‌‌باب النفقة، ج:3، ص:575، ط: ایچ ایم سعید کمپنی)

وفیہ ایضاً:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."

(کتاب الفرائض، ج:6، ص:758، ط: ایچ ایم سعید کیمپنی)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

سوال :  میں گزشتہ نو دس سال سے تجارت کے پیشے سے وابستہ ہوں، لیکن انتہائی سعی اور جدوجہد کے باوجود حالات بتدریج خراب ہوتے جا رہے ہیں، حتی کہ یہ نوبت آگئی ہے کہ گھر کا خرچہ اور بچوں کی فیسوں تک کے لالے پڑ گئے ہیں۔ شک گزرتا ہے کہ کسی بداندیش نے مجھ پر جادو نہ کر دیا ہو۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مجھ پر حسب البحر نامی جادو کیا گیا ہے، آپ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: آپ کی پریشانی سے بہت دل دُکھا ، دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیوں کو دور فرمائے ۔ کسی اچھے عامل کو دیکھا لو تو بہتر ہے۔ میں تو ان عملیات کو جانتا نہیں۔ ایک عمل بتاتا ہوں ، وہ کریں، ان شاء اللہ ، اللہ تعالی مدد فرمائیں گے۔ مغرب یا عشاء کے بعد گھر کے تمام افراد بیٹھ کر تین سو تیرہ مرتبہ آخری دونوں سورتیں ( معوذتین ) پڑھ کر دعا کیا کریں، اور گھر میں ٹی وی وغیرہ نہ چلائیں۔ دُعا کرتا ہوں کہ آپ کی تمام مشکلات کو اللہ تعالی اپنی رحمت سے آسان فرمائے۔

(اوراد و وظائف، ج:4، ص:256، ط: مکتبہ لدھیانوی کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144512101824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں