بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کا بہو کو برابھلا کہنا


سوال

اگر ساس چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر بہو کو گندی گالیاں دے تو شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورت مسئولہ میں ساس اور بہو دونوں کو تحمل مزاجی اور برداشت سے کام لینا چاہیے،سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ  معاشرت  اور ہم دردی و ایثار  کے  جذبے  سے  ہی چل سکتا ہے،کچھ ذمہ داریاں عورت کی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں شوہر کی ہیں، عورت کے ذمے  اپنی  ساس اور سسر کی خدمت  اگرچہ شرعاً  وقضاءً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر اس  کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ساس اور سسر  اُس کے شوہر کے ماں  باپ ہیں، لہٰذا جس طرح  وہ اَپنے ماں باپ  کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کے ماں باپ کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور خدمت نہ کرنے کی وجہ سے  بہو  کے ساتھ ناروا سلوک کرنا، طعنہ دینا یا اس کے والدین کو برا بھلا کہنا شرعًا جائز نہیں ہے،(بلکہ خود ساس سسر کے بیٹے اور بیٹیوں پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے)  یعنی دونوں طرف   اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ  وہ اپنی بہو کوگالیاں دینے اور برابھلا کہنے کے بجائے اپنی بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔ 

نیز ایسی صورت حال میں شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت وغیرہ کے لیے کچھ وقت ضرور نکالے، اوروالدہ کو تنہائی میں یہ سمجھائے کہ ہم آپ کے خدمت گار ہیں، نیز ان کی اہلیہ بھی ان کی والدہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتی ہیں، ان کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتی ہیں، لہذا والدہ ان کی اہلیہ کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئے، اور طعن و تشنیع سے اجتناب برتے، گالم گلوچ شرعاً ناجائز ہیں، ان سے بھی اجتناب کرے ۔ نیز شوہر ساتھ ساتھ اپنی اہلیہ کو بھی سمجھا دے کہ میری دلی توجہ مکمل تمہاری طرف ہی ہے، البتہ والدہ کا حق ہے، نیز ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے خلاف ہوجائیں یا کچھ سوچیں یا بد دعا دیں تو میں ان کو کچھ وقت دے کر ان کی دعائیں لے لوں، اس سے مجھے اور میری نسلوں کا ہی فائدہ ہے۔

در اصل کچھ معاملات انسانی نفسیات اور فطرت سے بھی تعلق رکھتے ہیں، مائیں اپنے بچوں کو بہت چاہ اور لاڈ سے پالتی ہیں، لڑکوں سے بے پناہ محبت کرتی ہیں، اور لڑکے ان کے بڑھاپے کا آسرا اور سہارا ہوتے ہیں،  اور شادی سے پہلے تک چوں کہ بیٹے کا (تعلیم و ملازمت سے زائد اضافی) وقت والدہ کے ساتھ گزرتاہے تو انہیں نفسیاتی طور پر اطمینان ہوتاہے، لیکن شادی کے بعد فطری طور پر بیٹے کا وقت بیوی بچوں اور سسرالی حقوق کی ادائیگی میں جب صرف ہوتاہے، تو ماں کو بیٹا دور ہوتے محسوس ہوتاہے، یہ فطرت کا حصہ ہے، اگر اس موقع پر انسان نفسیات کو سمجھ جائے اور صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمت کی راہ اختیار کرے تو مسائل جلد حل ہوجاتے ہیں،   ورنہ یہ اختلافات کسی ایک فریق سے دوری اختیار کرنے پر منتج ہوتے ہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102465

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں