بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کا اپنی مملوکہ زمین مہر میں لکھوانا


سوال

میرے والد محترم اور والدہ محترمہ کا نکاح 1964 میں انجام پایا۔ بوقت نکاح حق مہر میں رقم اور زیورات کے علاوہ میری دادی محترمہ نے اپنی ملکیتی زمین سے دو جریب زمین (۸) کنال زرعی اراضی بھی حق مہر میں لکھوائی اور بصراحت نکاح فارم میں یوں درج کی گئی(حق مہر میں جو دو جریب زمین زرعی دی گئی ہے ، دولہا کی والدہ کی ملکیت ہے ۔ دولہا کی والدہ نے اقرار کیا اور لکھ دیا ہے کہ مندرجہ زمین دو جریب میری والدہ کی ملکیت ہو گی مندرجہ خسرہ جات نمبرات 1,2,3,4 کی مجموعی زمین میں سے دو جریب نہری زمین لکھ دی ہے کہ سند رہے) ۔مجموعی طور پر مذکورہ زمین 32 کنال 1 مرلہ ہے جو 1970 میں میرے والد محترم اور میرے چچا کے نام ٹرانسفر ہوئی لیکن میری والدہ کے نام حق مہر کی زمین ٹرانسفر نہیں کی گئی ۔ میرے والد 2010 میں وفات اور میری دادی 1999 میں وفات پاچکے ہیں۔ جبکہ میری والدہ محترمہ اور میرے چچا حیات ہیں۔ مذکورہ 32 کنال 1 مرلہ زرعی اراضی میں میری والدہ کے حق مہر اور میرے والد اور چچا کے مابین تقسیم کیسے کی جائے؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ  سائل کی دادی نے جو اپنی ملکیتی ۳۲ کنال زمین میں سے دو جریب زمین یعنی ۸ کنال سائل کی والدہ کے مہر میں لکھوائی تھی اور یہ زمین سائل کے والد کی طرف سے دادی نے مہر میں طے  کی تھی  اس لئے اس سے سائل کی والدہ اس 8 کنال زمین کی حقدار بن گئی تھی، ان کو چاہئے کہ کاغذات میں منتقلی کے وقت سائل کی والدہ کے 8 کنال والدہ ہی کے نام پر منتقل کروائے، بہر صورت شرعاً  اس میں سائل کے  چچا وغیرہ کا کوئی حق و حصہ نہیں ہے،  البتہ جو باقی زمین ہے وہ سائل کی دادی کے شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"حاصل هذه المسألة أن المسمى إذا كان من غير النقود بأن كان عرضا أو حيوانا إما أن يكون معينا بإشارة أو إضافة فيجب بعينه.....الخ"

(کتاب النکاح ، باب المهر جلد ۳ ص : ۱۲۹ ط : دارالفکر)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"المهر: هو كل مال متقوم معلوم مقدور على تسليمه. فيصح كون المهر ذهبا أو فضا، مضروبة أو سبيكة، أي نقدا أو حليا ونحوه، دينا أوعينا، ويصح كونه فلوسا أو أوراقا نقدية، مكيلا أو موزونا، حيوانا أوعقارا، أو عروضا تجارية كالثياب وغيرها."

(القسم السادس : الاحوال الشخصیة ، الباب الاول : الزواج و آثارہ جلد ۹ ص : ۶۷۶۸ ط : دارالفکر ۔ سوریة ۔ دمشق)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310101473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں