بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کے ساتھ ناجائز تعلق ہو تو بیوی حرام ہوجاتی ہے


سوال

ایک لڑکے کانکاح ہوا، رخصتی  ابھی نہیں ہوئی،  پوچھنا یہ ہےکہ منکوحہ کی  ماں سے اس لڑکے  کے ناجائز تعلقات ہیں، کیا منکوحہ اپنے شوہر پر حرام ہوئی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ساس کے ساتھ زناکرنےیااس کو شہوت کے ساتھ چھونے سے بیوی شوہرپرہمیشہ کے لیےحرام ہوجاتی ہے ،بشرطیکہ چھونادرج ذیل شرائط کے ساتھ ہو:

۱۔ چھونابغیرحائل کے ہو۔

۲۔چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت پیداہو۔

۳۔شہوت چھونے کے ساتھ ہو ،اگرچھوتے وقت شہوت پیدانہ ہو ،پھر بعد میں شہوت پیداہوتو  بیوی حرام نہیں ہوگی۔

۴۔شہوت ختم ہونے  سے پہلے انزال نہ ہواہو ،اگر شہوت ختم ہونے سے پہلے انزال ہوگیاتو بیوی حرام نہیں ہوگی۔

۵۔عورت کی عمر کم ازکم نو سال اور مردکی عمر کم از کم بارہ سال ہو۔

صورت ِ مسئولہ میں اگرمذکورہ لڑکے نے اپنی  ساس کے ساتھ زناکیا ہویامندرجہ بالاشرائط کے ساتھ چھونا پایاگیاہو تو منکوحہ اپنے شوہر پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوچکی ہے ۔لیکن اس عورت کے لیے دوسرے مرد سے نکاح تب جائز ہوگاجب  یہ شخص اسے اپنے نکاح سے الفاظ کے ذریعے نکال دے، مثلاً: یوں کہہ دے کہ میں نے تجھے  اپنے نکاح سے خارج کیا، یا میں نے تجھے  چھوڑدیا  وغیرہ وغیرہ ، اور اس  کے بعد   وہ عورت   دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر  مذکورہ لڑکے کے نکاح سے پہلے ہی  اس عورت کے ساتھ ناجائز تعلق تھا تو اس کی بیٹی سے نکاح کرنا ہی درست نہیں تھا؛ لہٰذا ایسی صورت میں نکاح ہی منعقد نہیں ہوگا۔

در مختار میں ہے:

(قبل أم امرأته ۔۔۔حرمت) عليه (امرأته ما لم يظهر عدم الشهوة) (وفي المس لا) تحرم (ما لم تعلم الشهوة)

 ( کتاب النکاح ، ج :3 ،ص: 35 ، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقًاوالعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهماو حدها فيهما تحرك آلته أو زيادته، به يفتى. وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته".(قوله: والعبرة إلخ) قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لاتحرم عليه. اهـوكذلكفيالنظر،كمافيالبحر،فلواشتهىبعدماغضبصرهلاتحرم.قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها؛ لما في الفيض: لو نظر إلى فرج بنته بلا شهوة فتمنى جاريةً مثلها فوقعت له الشهوة على البنت تثبت الحرمة، وإن وقعت على من تمناها فلا۔۔۔(قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجوداً قبلهما

( کتاب النکاح ، ج :3 ،ص: 33 ، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة 

(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك

 

( کتاب النکاح ، ج :3 ،ص: 37 ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں