بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کے پستان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

ایک شخص نے دھوکہ سے اپنی ساس کے پستان کواپنی بیوی خیال کرتے ہوئے پکڑ لیا ،شھوت کا پایا جانا تو ظاہر ہی ہے، لیکن دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا حائل یا بلا حائل کا اعتبار اس مسئلہ میں ہوگا ؟

کیوں کہ فقہاء کرام نے جہاں بھی اخذ پستان کے جزئیہ کا ذکر کیا ہے تو حائل اور حرارت وغیرہ کا کہیں ذکر نہیں کیا :

چنانچہ ہندیہ میں:

" ولو اخذ ثدیھا وقال:ما کان شھوۃ لا یصدق لان الغالب خلافه اھ وکذا فی الشامی والبحر والمحیط. "

اور اس جزئیہ  میں فقہاء نے لفظِ  اخذ استعمال کیا ہے جب کہ حرمت مصاہرت کی  دوسری  جزئیات میں لفظ لمس استعمال کیا ہے ۔

جواب

صورتِ    مسئولہ  میں جب مذکورہ شخص نے  شہوت کے ساتھ اپنی  ساس کے پستان کو پکڑا ہے،تو  اگر  پستان کے اوپر  کپڑا نہ تھا یا باریک کپڑا تھا تو  حرمتِ  مصاہرت  ثابت ہوگئی  ہے، اور اس شخص کی بیوی  اس پر حرام ہوگئی ہے۔ اور اگر پستان پر موٹا کپڑاتھا، جس کی وجہ سے حرارت محسوس نہیں ہو رہی تھی،تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

جہاں تک جزئیہ مذکورہ کی بات ہے، تو اس میں  "لمس"  کے بجائے "اخذ"  کا تذکرہ  عرف کی وجہ سے ہے،اور  پستان میں "اخذ"  غالب ہوا کرتا ہے "لمس"  کے مقابلے میں،  اسی وجہ سے "لمس"  کی جگہ  "اخذ"  کا لفظ لایا،  لیکن   یہاں   "اخذ "  میں بھی "لمس"  کی طرح حائل اور بلا حائل کا اعتبار ہوگا،"اخذ"  سے مراد  بھی  "اخذ کامل  فی باب المصاہرت"  ہوگا،اور  اخذ کامل حرمت مصاہرت  کے  باب میں  اخذ بلا حائل یا  حائل  غیر معتبر(جس سے حرارت محسوس ہوتاہو)شمارہوتا ہے۔

نیز  مس کے مسئلہ میں حائل کا اعتبار   متقدمین کی  کتب میں  بالتصریح مذکور ہے،اور مذکورہ مسئلہ ( اخذ پستان) میں  اکابر  علماء دیوبند کے فتاوی جات میں بھی حائل کا اعتبار کیا گیا ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة. ."

( الفتاوى العالمكيرية المعروفة بالفتاوى الهندية، كتاب النكاح،الباب الثالث، ج:1، ص:375،  ط: دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

" ولو ‌أخذ ‌ثديها وقال: ما كان عن شهوة لا يصدق؛ لأن الغالب خلافه."

(الفتاوى العالمكيرية المعروفة بالفتاوى الهندية، كتاب النكاح، القسم الثاني المحرمات بالصهرية ج:1، ص:267، ط: دار الفكر بيروت)

" النهر الفائق شرح كنز الدقائق "میں ہے:

"وفي (البزازية) ‌أخذ ‌ثديها أو ركب معها على دابة أو قام إليها منتشراً أو عانقها وقبلها وزعم عدم الشهوة لا يصدق وهل تقبل الشهادة عليها بالشهوة؟ فقيل: لا تقبل وإليه مال ابن الفضل وهو المختار كما في (التجنيس) وقيل: تقبل وإليه مال البزدوي وهكذا ذكر محمد في نكاح (الجامع) لأن الشهوة مما يوقف عليها في الجملة إما بتحرك العضو أو بآثار أخرى ممن لا يتحرك بعضوه وعلى هذا الخلاف نظره إلى فرجها أو نظرها إلى فرجه بشهوة (يوجب) كل منهما (حرمة المصاهرة) مقيد في اللمس."

( النهر الفائق شرح كنز الدقائق لسراج الدين عمر بن إبراهيم بن نجيم الحنفي (ت ١٠٠٥هـ)، كتاب النكاح،  ‌‌فصل في المحرمات ج:2، ص:193،ط: دار الكتب العلمية)

"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر"میں ہے:

"(وكذا) يوجبها (المس) ولو بحائل ووجد حرارة الممسوس سواء ‌كان ‌عمدا، ‌أو ‌سهوا، ‌أو ‌خطأ ‌أو ‌كرها حتى لو أيقظ زوجته ليجامعها فوصلت يده ابنته منها فقرصها بشهوة وهي ممن تشتهى لظن أنها أمها حرمت عليه الأم حرمة مؤبدة."

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرلعبدالرحمن بن محمد بن سليمان، المعروف بـ «داماد أفندي» [ت ١٠٧٨ هـ] كتاب النكاح، باب المحرمات،  ج:1، ص:326، ط : دار إحياء التراث العربي، بيروت)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"ایک نے پستان پکڑ نا بیان کیا دوسرے نے بوسہ لینا کیا حکم ہے ؟

(سوال ۵۸۶) زید  شہادت دیتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ عمر اپنے فرزند کی زوجہ ہندہ کے ساتھ برہنہ لیٹاہوا تھا اور زوجہ کے پستان پکڑے ہوا تھا خالد شہادت دیتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ زید نے اپنے فرزند کی زوجہ کا بوسہ لیا  اس صورت میں حرمت  مصاہرت ثابت ہوگی  یا نہیں ؟

(الجواب )  اس صورت  میں زید کے بیان میں یہ امر مذکور نہیں ہے کہ پستا ن کا پکڑنا شہوت کے ساتھ تھا یا نہ تھا اسی طرح بوسہ میں بھی شہوت کا ذکر نہیں ہے اور پھر یہ کہ بوسہ دینا صرف ایک گواہ کا بیان  ہے اور پستان کا پکڑنا بھی صرف ایک شخص کا بیان ہے دونوں  گواہ کسی امر واحدپر متفق نہیں ہیں لہذا حرمت مصاہرت اس صورت میں ثابت نہیں ہوگی ۔

درمختار میں  وتقبل الشهادۃ علی الاقرار باللمس والتقبیل عن شهوۃ و کذا تقبل علیٰ  نفس اللمس والتقبیل الخ عن شهوۃ الخ  

 پس  اس صورت  میں نہ  لمس بالشہوۃ پر پوری شہادت ہے اور نہ تقبیل پر پوری شہادت  ہے اور گواہوں کے بیان میں اختلاف بھی ظاہر ہے اس لئے حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی ۔ فقط"

(فتاوی دارالعلوم دیوبند، کتاب النکاح،  ج:7، ص:257، ط:دار الاشاعت)

وفیہ ایضاً:

" ساس کا پستان پکڑا،  زوجہ حرام ہوئی یا نہیں ؟

(سوال۶۴۰) ایک شخص نے اندھیرے میں اپنی ساس کے  پستان کو پکڑ کر کھینچا شہوت  سے یعنی اپنی زوجہ سمجھ کر،  لیکن جب اس کو معلوم ہوا توبہت شرمندہ ہوا،  ایسے شخص کے  لیے اس کی زوجہ کیسی ہے ؟

(الجواب ) اگر اوپرپستان کے کپڑا نہ تھا یا باریک کپڑا تھا تو بشہوۃ اس کو ہاتھ لگانے سے اس  کی زوجہ اس پر حرام ہوگئی ۔  فقط "

(فتاوی دارالعلوم دیوبند، کتاب النکاح،  ج:7، ص:277، ط:دار الاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"شہوت سے اپنی بالغ لڑکی کے بدن کو مس کیا ؟:

(سوال  ۲۳۶)ایک شخص نے اپنی بالغہ کنواری لڑکی کی چھاتیوں  کوشہوت کے ساتھ پکڑ کر خوب بھینچا اور پھر چھوڑ دیا اب استفتاء یہ ہے کہ اس لڑکی کی ماں  اور باپ میں  رشتۂ زوجیت قائم رہا یا ٹوٹ گیا ؟ اگر ٹوٹ گیا تو رجوع کی کوئی صورت ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔

(الجواب)صورت مسئولہ میں  اگر لڑکی کے جسم پر ایسا موٹا کپڑا ہوا کہ پستان پکڑنے پر بدن کی حرارت محسوس نہ ہو تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی ۔(قولہ بحائل لایمنع الحرارۃ) ای ولو بحائل فلو کان مانعاً لا تثبت الحرمة کذا فی اکثر الکتب (شامی ج۲ ص ۳۸۵)فتاویٰ عالمگیری میں  ہے ثم المس انما  یوجب حرمة المصاھرۃ اذا لم یکن بینھما ثوب اما اذا کان بینھما ثوب فان کان صفیقاً لا یجد الماس حرارۃ الممسوس لا تثبت حرمۃ المصاھرۃوان انتشرت آلته بذلک وان کان رقیقا بحیث یصل حرارۃ الممسوس الی یدہ تثبت کذا فی الذخیرۃ(عالمگیری ج۲ ص ۶ کتاب النکاح ۔ الباب الثالث فی بیان المحرمات) لہذا اگر لڑکی کے جسم پر کپڑا نہ ہو یا ہو مگر یاسا پتلا سا ہو کہ جسم کی حرارت محسوس ہوگئی تو  حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی اور اس کی والدہ اس کے باپ پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی ، رجوع اور تجدید نکاح کی کوئی صورت نہیں  ہے وحرم ایضا بالصھویۃ(اصل مزینته واصل ممسوسته بشھوۃ) ولولشعر علی الراس بحائل لا یمنع الخ (درمختار مع الشامی ج۲ ص ۳۸۵ فصل فی المحرمات)دوسری جگہ ہےفلو ایقظ زوجته‘ اوا یقظته ھی لجماعھا فمست یدہ‘ بنتھا المشتھاۃ او یدھا ابنه حرمت الا م  ابداً فتح (درمختار مع الشامی ج۲ ص ۳۸۸ ایضاً) فقط واﷲ اعلم بالصواب۔۲ جمادی الاولی ٰ ۱۳۹۹؁ھ۔"

(فتاوی رحیمیہ ، کتاب النکاح، محرمات کابیان، ج:8، ص:199، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406100188

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں