بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس بہوکے ساتھ تعلق کیسے ہونے چاہیں؟


سوال

میں صرف ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، میں صحیح جواب حاصل کرنے کے لیے تفصیل سے بات کروں گی ،میرا معاملہ یہ ہے کہ میری شادی کو 3 سال ہو چکے ہیں، اور میری ساس کا رویہ میرے ساتھ بہت برا ہے، جب بھی میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ صحیح سلوک نہیں ہے،  توانہو ں نے ہمیشہ مجھے جواب دیا کہ وہ میری ماں ہیں اور میں ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا ،کیوں کہ یہ میرے اللہ کا حکم ہے، اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی کہا ہے کہ مرد پر اس کی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے،اور عورت پر اس کے شوہر کا، اب میں 3 ماہ کے بیٹے کی ماں ہوں، اور جب بھی ہمیں اپنے بیٹے کے لیے کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو میرے شوہر مجھ سے کبھی نہیں پوچھتے ،وہ خود فیصلہ کرتے ہیں اور اگر انہیں کوئی مشورہ لینا ہو تو وہ ہمیشہ اپنی امّی سے پوچھتے ہیں، تو اب میں نے ان سے کہا کہ وہ میرا بیٹا ہے اور جیسا کہ آپ کہتے ہو کہ مرد پر اس کی ماں کا حق سب سے زیادہ ہوتا ہے تو میں اس کی ماں ہوں اور میرا حق سب سے زیادہ ہے، اب وہ کہتے ہیں  کہ ہاں تم میرے بیٹے کی ماں ہو ، لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا ہے کہ عورت پر اس کے شوہر کا حق سب سے زیادہ ہے، تو تکنیکی طور پر ہمارے بیٹے پر میرا حق آپ سے اوپر ہے، تو یہ کیا منطق ہے کہ اگر آپ ایک بیٹے ہو تو آپ کی ماں کا آپ پر سب سے زیاد حق ہے ،لیکن اگر آپ شوہر ہو اور آپ کی بیوی پر آپ کا حق زیاد ہے تو آپ کے بیٹے پر بھی آپ کا حق زیاد ہوگا، یہ کیا بات ہوئی؟،اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا کسی پر کوئی حق نہیں  ہے،نہ اپنے شوہر پر اور نہ بیٹے پر؟ اس طرح میں سوچنے لگتی ہوں کہ کیا واقعی یہ سچ ہے کہ اسلام میں عورتوں کا کوئی حق نہیں ہے، مجھے پتہ ہے کہ یہ سچ نہیں ہے، لیکن جو لوگ اسلام کا نام اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کوئی اپنا ایمان کھو سکتا ہے ۔ برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں ساس اور بہو دونوں کو تحمل مزاجی اور برداشت سے کام لینا چاہیے،سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ  معاشرت  اور ہم دردی و ایثار  کے  جذبے  سے  ہی چل سکتا ہے،کچھ ذمہ داریاں عورت کی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں شوہر کی ہیں،ساس کا اپنی بہو   کے ساتھ ناروا سلوک کرنا،  شرعًا جائز نہیں ہے،  یعنی دونوں طرف   اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ  وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے ، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔ 

نیز اہم معاملات میں باہمی مشورہ لینا  رسول اللہ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت اور دنیا و آخرت میں باعثِ برکت ہے،  حدیث مبارک میں ہے ، جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہوگا، اور جس نے (کام سے پہلے) مشورہ کیا وہ نادم نہیں ہوگا؛ لہذا دین و دنیا کے اہم معاملات میں مشورہ لینا سنت سے ثابت ہے، اور بہتر عمل ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ سے اپنی ازواجِ مطہرات سے مشورہ لینا بھی ثابت ہے،  صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے معاہدے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے حلال ہونے کا فرمایا تو صحابہ کرام  نے فوری طور پر تعمیلِ ارشاد نہ کی، اس کی وجہ جہاں عمرے کی ادائیگی سے روکے جانے کا رنج و غم  تھا، اس کے ساتھ  اس کا انتظار بھی تھا کہ  ممکن ہے کوئی صورت عمرے کی ادائیگی کی بن جائے،  اس پر آپ ﷺ  زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے خیمے میں تشریف لائے اور  اس بات کا ذکر فرمایا، ام سلمہ  رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ حضورﷺ!  کیا آپ ﷺ احرام کھولنا چاہتے ہیں؟ میری رائے یہ ہے کہ آپ انہیں کچھ کہے بنا، خود حلق کروالیجیے، چناں چہ رسول اللہ ﷺ  جیسے ہی حلق کے لیے بیٹھ گئے، تو صحابہ کرام میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ سب سے پہلے حکم کی تعمیل کرے۔ الغرض اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ  کا مشورہ امت کے لیے آسانی اور رسول اللہ ﷺ کے لیے راحت   کا سبب بنا۔

صحيح البخارى میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌إياكم ‌والظن؛ فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، ولا تباغضوا، وكونوا عباد الله إخوانا."

(کتاب الادب،‌‌باب ما ينهى عن التحاسد والتدابر،ج:8،ص:19،رقم:6064،ط:السلطانیة)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌المؤمن ‌مألف ولا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف» رواهما أحمد والبيهقي في «شعب الإيمان."

(‌‌كتاب الآداب،باب الشفقة والرحمة،على الخلق،‌‌الفصل الثالث،ج:3،ص:1392،رقم:4995،ط:المکتب الاسلامی)

صحیح مسلم میں ہے:

"روى مسلم في صحيحه من حديث ابن عباس- رضي الله عنه - قال: فلما أسروا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر وعمر: "ما ترون في هؤلاء الأسارى؟" فقال أبو بكر: يا نبي الله، هم بنو العم والعشيرة، أرى أن تأخذ منهم فديةً، فتكون لنا قوة على الكفار، فعسى الله أن يهديهم للإسلام، فقال رسول الله: "ما ترى يا ابن الخطاب؟" قلت: لا والله يا رسول الله! ما أرى الذي رأى أبو بكر، ولكني إن تمكنا فنضرب أعناقهم، فتمكن علياً من عقيل فيضرب عنقه، وتمكني من فلان (نسب فلان) فأضرب عنقه، فإن هؤلاء أئمة الكفر، وصناديدها، فهوى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال أبو بكر، ولم يهو ما قلت، فلما كان من الغد جئت فإذا رسول الله وأبو بكر قاعدين يبكيان، قلت: يا رسول الله أخبرني من أي شيء تبكي أنت وصاحبك؟ فإن وجدت بكاء بكيت، وإن لم أجد بكاء تباكيت لبكائكما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أبكي للذي عرض على أصحابك من أخذهم الفداء، لقد عرض علي عذابهم أدنى من هذه الشجرة" - شجرة قريبة من نبي الله صلى الله عليه وسلم-. وأنزل الله عز وجل: قال تعالى: ﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ ﴾ إلى قوله: ﴿ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالاً طَيِّباً وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾ [الأنفال: 67-69]. فأحل الله الغنيمة لهم".

(كتاب الجهاد والسير،باب الإمداد بالملائكة في غزوة بدر، وإباحة الغنائم،ج:3،ص:1383،رقم:1763،ط:دار إحياء التراث العربي)

نیز صحابہ کرام سے ثابت ہے، انہوں نے اپنے دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ سے مشورہ فرمایا ہے۔

شرح المعانی الآثار میں ہے:

"حدثنا يونس قال: أخبرنا ابن وهب أن مالكا أخبره عن عبد الله بن يزيد مولى الأسود بن سفيان ، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف ، عن فاطمة بنت قيس ، قالت: لما حللت أتيت رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم ، فذكرت له أن معاوية بن أبي سفيان ، وأبا جهم خطباني، فقال رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم: أما أبو جهم فلا يضع عصاه من عاتقه ، وأما معاوية فصعلوك لا مال له ، ولكن انكحي أسامة بن زيد. قالت: فكرهته ، ثم قال: انكحي أسامة، فنكحته، ‌فجعل ‌الله ‌فيه ‌خيرا ، ‌واغتبطت به."

(كتاب النكاح،‌‌باب ما نهي عنه من سوم الرجل على سوم أخيه وخطبته على خطبة أخيه،ج:3،ص:5،رقم:4243،ط:عالم الكتب)

خود صحابہ کا باہم دنیاوی امور میں مشورہ کرتے تھے،جیسا کہ 17ھ میں حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھاکہ امارتِ اسلامیہ کی طرف سے مختلف ممالک کے بادشاہوں کو خطوط روانہ کیے جاتے ہیں، مگر ان میں تاریخ نہیں لکھی ہوتی، اگر تاریخ لکھنے کا اہتمام ہو جائے تو اس میں بے شمار فوائد ہیں، مثلاً پتا چل جائے گا کہ کون سے دن آپ کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا۔کب یہ حکم متعلقہ حکام تک پہنچا،کب اور کس تاریخ کو اس پر عمل در آمد ہوا وغیرہ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ مشورہ بہت پسند آیا، چناں چہ انہوں نے اکابر صحابہ کرام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دلا ئی او ر مشورہ کے لیے جمع کیا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100741

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں