بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کو بچانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے کاحکم


سوال

اگر کوئی نند باربار بھائی اور بھاوج میں لڑائی کروادے کیوں کہ اس کو اپنی بھاوج پسند نہیں اور باربار بھاوج  کا شوہر ان کی باتوں میں آکر بیوی کا خرچہ بند کردے ،مار پیٹائی کرے یا ذہنی اذیت دے اس کےباوجودکہ  شوہر کے سامنےاس کے گھر والے کئی بار جھوٹےثابت ہوچکے ہوں، تو  کیابیوی اپنے سسرال والوں سے ملناجلنا ختم کرسکتی ہے؟ اور شوہر کو ان کی باتوں سے بچانے کےلیے جھوٹ کا سہارا لےسکتی ہے تاکہ گھر بچ سکے۔

وضاحت:خرچہ بندکرنے مراد کھانے پینےکاخرچہ، بجلی گیس کابل، بچوں کی اسکول کی فیس، بچوں کاخرچہ پچھلے چھ مہینے سے نہیں دیا، بات تک نہیں کرتے، میرے شوہر کو نوکری کی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اس کو گھر سے نکال دیاتھا تو  پچھلے پندرہ سال سےوہ اور میں میرے والد کی طرف سے ملے ہوئے گھر میں رہتے ہیں، اس کے باوجود شوہر اپنی بہن کی باتوں میں آکر مجھ پر اور میرے والدین پر جھوٹے الزمات لگاتاہے، اس لیے کیا میں اپنے شوہر سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ آپ کی بہنیں آپ کی باتیں مجھ تک پہنچاتی ہیں لڑائی کروانے کےلیے تاکہ میرے شوہر ان کی باتوں میں نہ آئیں ۔

جواب

واضح رہے کہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اور  جھوٹ سے بچنا اور سچ کو لازم پکڑنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، لیکن شریعتِ مطہرہ نے ضرورت کے مواقع پر "توریہ" اور "تعریض"  کی گنجائش دی ہے جہاں سچ بول کر مقصود حاصل کرنا ممکن نہ ہو، ایسے مواقع پر صریح جھوٹ نہ بولا جائے ، بلکہ گول مول سی بات کی جائے ، مثلاً جان جانے کا خطرہ ہو تو "توریہ" اختیار کرکے جان بچالی جائے، دو بندوں میں صلح کرانے کی غرض سے "توریہ" سے کا م لیا جاسکتا ہے، لیکن کسی کے غصے سے بچنے کے لیے یا کسی کے دل ٹوٹ جانے کے خوف سے "توریہ" اختیار کرنا  جائز نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بیوی کے لیے اپنے گھر کو بچانے کےلیے جھوٹ کا سہارا لیناناجائز ہے، البتہ توریہ  سے کام لینا جائز ہے، یعنی بات کو گول مول کرکےکی جائے؛ تاکہ مقصود بھی حاصل ہوجائے تو جھوٹ سے بھی بچ جائے، نیز  کسی پر جھوٹا الزام لگاناجائز نہیں ہوگا۔

الدرالمختار مع الردالمحتار میں ہے:

"الكذب مباح لإحياء حقّه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض؛ لأن عين الكذب حرام."

(كتاب الحظر وإباحت،فصل في البيع،ج:6،ص:427،ط:سعيد)

مجمع الانہر میں ہے:

"و الكذب حرام إلا في الحرب للخدعة وفي الصلح بين اثنين وفي إرضاء الأهل وفي دفع الظالم عن الظلم."

(كتاب الكراهية،فصل في المتفرقات،ج:2،ص:552،ط:دارالأحياء التراث العربي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں