بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

ساس بہو کے جھگڑے میں بیٹے کا والدین سے بدزبانی کرنا / والدین کی اطاعت کی حد


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ گھر میں جس طرح عام طور پر ساس بہو میں یا سسر بہو میں اختلافات ہو جاتے ہیں‘  یا اس طرح کے حالات ہوتے ہیں کہ بیٹے کو بحالتِ مجبوری کچھ باتیں کرنا پڑتی ہیں‘ جس میں بعض اوقات کچھ الفاظ والدین کے لیے بھی ادا ہو جاتے ہیں‘ یا زور سے بات کر لی جاتی ہے‘ یا اُن کے مزاج کے خلاف بات کی جاتی ہے‘ یا اُن کو بہت ساری باتوں پہ کہا جاتا ہے کہ یہ آپ نے غلط کیا، یہ آپ غلط کر رہے ہیں وغیرہ، اور اس طرح کے دوسرے الفاظ ادا ہو جاتے ہیں، اگرچہ والدین ہی غلطی پر ہیں،  تو ایسی صورت ِحال میں بیٹے کے لیے کیا حکم ہے کہ وہ جو الفاظ اس سے ادا ہو گئے ہیں یا جو اُس نے ایک قسم کی بدتمیزی یا زور سے بولا ہے، اس کے لیے کیا حکم ہے؟  اگرچہ وہ بولنا اس پر ضروری بھی تھا؛ کیوں کہ والدین بیوی کے اوپر غلط بات کر رہے تھے جو کہ نہیں تھی،  لیکن بحیثیتِ بیٹا اس کے لیے کیا حکم ہے وہ اپنی بیوی کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے کہ والدین کا جو رتبہ ہے اس کو بھی آنچ نہ آئے، اور بیوی کے ساتھ بھی زیادتی نہ ہو اور تینوں ساتھ مل کر رہ سکیں؟ کیوں کہ سائل  کی مالی حیثیت ایسی نہیں کہ وہ دونوں کو الگ الگ رکھ سکے۔ براہِ کرم اس صورت حال میں جو شرعی نکات ہیں وہ بیان کر دیں!

جواب

واضح رہے کہ والدین کا رتبہ بہت بلند ہے، اور اُن کی اطاعت اور اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت تاکیدقرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہے، حتیٰ کہ اگر وہ کسی معاملے میں ظلم پر اُتر آئیں، تب بھی اُن کے ساتھ بدسلوکی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

"وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أصبح مطيعا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا. ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا» قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: «وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه»."

(مشكاة المصابيح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، ٣/ ١٣٨٢، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے  لیے اپنے والدین کا فرماں بردار رہا، اس کے  لیے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گے، اور جو اُن کا نافرمان ہوا، اس کے  لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گے، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک تھا تو ایک دروازہ (جنت یا جہنم کا) کھلا رہے گا، اس پر ایک شخص نے سوال کیا: یہ (جہنم کی وعید) اس صورت میں بھی ہے جب والدین نے اولاد پر ظلم کیا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو، اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو، اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو (یعنی والدین کوایذاء پہنچانے پر جہنم کی وعید ہے اگرچہ والدین نے دنیاوی اُمور میں اولاد پر ظلم کیا ہو)۔"

البتہ ایسی صورت میں (یعنی جب والدین کسی ناجائز بات کا مطالبہ کررہے ہوں یا ظلم کررہے ہوں تو) اگرچہ والدین کے ساتھ بدسلوکی اور اُن کو ایذاء رسانی کی ممانعت ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اُن کے ناجائز مطالبات بھی مان لیے جائیں اور اُن کے ظلم میں ان کا ساتھ دیا جائے، ایسی صورت میں والدین کی اطاعت فرض نہیں، بلکہ اُن کی بات نہ ماننا واجب ہے، مگر اس صورت حال میں بھی اُن کو پیار ومحبت اور نرمی کے ساتھ سمجھانا چاہیے اور ان کی غلطی کی نشان دہی کرنی چاہیے۔

جیسا کہ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

" وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ ."(15)

ترجمہ: "اور اگر تجھ پر وہ دونوں (بھی) اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کے شریک الوہیت ہونے) کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہو (اور ظاہر ہے کہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کے استحقاقِ شرکت پر کوئی دلیل قائم ہو، بلکہ عدمِ استحقاق پر دلیلیں قائم ہیں، پس مراد یہ ہوئی کہ اگر وہ کسی چیز کو بھی شریکِ الوہیت ٹھہرانے کا تجھ پر زور دیں) تو تُو اُن کا کہنا نہ ماننا اور (ہاں یہ ضرور ہے کہ) دنیا (کے حوائج ومعاملات) میں (جیسے انفاق وخدمت وغیرہ) اُن کے ساتھ خوبی کے ساتھ بسر کرنا۔"

(تفسیر بیان القرآن، ٩/ ٢٠، ط: میر محمد کتب خانہ)

نیز حدیث شریف میں ہے:

"عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا ‌طاعة ‌لمخلوق ‌في ‌معصية ‌الله ‌عز ‌وجل."

(مسند أحمد، مسند علي بن أبي طالب رضي الله عنه، ٢/ ٣٣٣، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:" نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ:اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے۔"

اسی طرح حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

"س… والدین اگر بیٹے سے کہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور بیٹے کی نظر میں اس کی بیوی صحیح ہے، حق پر ہے، طلاق دینا اس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، تو اس صورت میں بیٹے کو کیا کرنا  چاہیے؟ کیوں کہ ایک حدیثِ پاک ہے جس کا قریب یہ مفہوم ہے کہ ”والدین کی نافرمانی نہ کرو، گو وہ تمہیں بیوی کو طلاق دینے کو بھی کہیں“ تو  اس صورتِ حال میں بیٹے کے  لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟

ج… حدیثِ پاک کا منشا یہ  ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے  لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے  ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ آپ کے سوال کی یہی صورت ہے اور حدیثِ پاک اس صورت سے متعلق نہیں۔

          خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔"

(آپ کے مسائل اور ان کا حل، کتاب النکاح، باب تنسیخِ نکاح، ۶ /۶۸۲، ط:مکتبہ لدھیانوی)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اولاً تو آپ کو ساس بہو کے معاملات میں خود کو ٹھنڈے دل کے ساتھ اور قابو میں رکھنا چاہیے، کسی بھی صورتحال میں فوری اور جذباتی ردِ عمل آپ کے لیے دونوں طرف نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، پھر جب ٹھنڈے دل ودماغ سے صورتِ حال کا جائزہ لے لیں اور معاملہ کی تہہ تک پہنچ کر اس بات کا اندازہ لگالیں کہ کون سا فریق صحیح اور کون سا غلطی پر ہے، تو اگر بیوی غلطی پر ہو تو قرآنِ کریم میں سورۂ نساء کی آیت نمبر ٣٤  میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان بیوی کی اصلاح کے علی الترتیب تین طریقے ذکر فرمائے ہیں:

(1) اصلاح کا پہلا درجہ یہ ہے کہ نرمی سے اس کو سمجھائے، اور اچھے ماحول میں اچھے طریقے سے اس کی غلطیوں کی نشان دہی کرکے اس کے فرائض یاد دلائے۔

(2) اگربیوی  محض سمجھانے سے باز نہ آئے، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ  گھر کے اندر رہتے ہوئے شوہر اپنا بستر علیحدہ کر دے، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائے، تاہم خیال رہے کہ قرآن کریم میں "فِي الْمَضَاجِعِ" کا لفظ ہے، اس کامطلب  فقہاءِ کرام  نے  یہ لکھا ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑ دے، اس سے فساد بڑھنے کا اندیشہ   زیادہ ہے۔ 

(3) اور جوعورت  اس سزا  سے بھی متاثر نہ ہو تو پھر تیسرا درجہ یہ ہے کہ اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔

اور اگر والدین غلطی پر معلوم ہوں، تو ایسی صورت میں اُن کو نرمی اور پیارومحبت سے سمجھائیں، اور اگر وہ کسی ناجائز بات کا (مثلاً بیوی کو طلاق دینے کا) مطالبہ کریں، تو اُن کی بات نہ مانیں، مگر اُن کے ساتھ بدزبانی اور بدسلوکی کرنا بھی جائز نہیں۔ نیز اگر اس دوران  کوئی سخت بات منہ سے نکل جائے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور والدین سے بھی معافی مانگ لیں، اور ماضی میں جو ہوچکا اُس پر بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں، ان شاء اللہ‘ اللہ رب العزت معاف فرمادیں گے۔

جیسا  کہ سورۂ اسراء میں ارشاد ہے:

"وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيماً () وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً () رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُوراً."

[الأسراء: ٢٣ - ٢٥]

ترجمہ ومختصر تفسیر: "تیرے رب نے حکم کردیا ہے کہ بجز اُس (معبودِ برحق) کے کسی کی عبادت مت کر اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو اگر (وہ) تیرے پاس (ہوں اور) اُن میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے (کی عمر) کو پہنچ جاویں (جس کی وجہ سےمحتاج ِ خدمت ہوجاویں اور جب کہ طبعاً اُن کی خدمت کرنا ثقیل معلوم ہو) سو (اُس وقت بھی اتنا ادب کرو کہ) اُن کو کبھی (زبان سے) ہوں بھی مت کہنا اور نہ اُن کو جھڑکنا اور اُن سے خوب ادب سے بات کرنا اور اُن کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور (اُن کے لیے حق تعالیٰ سے) یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا کہ انھوں نے مجھ کو بچپن (کی عمر) میں پالا پرورش کیا ہے (اور صرف اس ظاہری توقیر وتعظیم پر اکتفا مت کرنا، دل میں بھی اُن کا ادب اور قصدِ اطاعت رکھنا کیوں کہ) تمہارا رب تمہارے مافی الضمیر کو خوب جانتا ہے (اور اسی وجہ سے تمہارے لیے ایک تخفیف بھی سناتے ہیں کہ) اگر تم (حقیقت میں دل ہی سے) سعادت مند ہو (اور غلطی یا تنک مزاجی یا دل تنگی سے کوئی ظاہری فروگذاشت ہوجاوے اور پھر نادم ہوکر معذرت کرلو) تو وہ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا ہے۔"

(بیان القرآن، ٦/ ٨١، ط: میر محمد کتب خانہ)

حدیثِ مبارک میں ہے:

"وعن عائشة رضي الله عنه قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن من أكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا ‌وألطفهم بأهله». رواه الترمذي."

(مشكاة المصابيح، ٢/ ٩٧٣، باب عشرة النساء، ط: قديمي)

ترجمہ: "کامل ایمان والا مسلمان وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو اور اپنے گھر والوں سے سب سے زیادہ مہربانی کرنے والا ہو۔"

 تفسیر مظہری میں ہے:

"{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ} ‌أى ‌أمرناه ‌أن ‌يبرّهما ويشكرهما جملة معترضة بين قصة لقمان ... (مسئلة) يجب بهذه الآية الإنفاق على الأبوين الفقيرين وصلتهما وإن كانا كافرين. عن أسماء بنت أبي بكر قالت قدمت علىّ أمي وهى مشركة فى عقد قريش فقلت يا رسول الله ان أمي قدمت علىّ وهى راغبة أفأصلها قال نعم صليها- متفق عليه- وقد مرّ في سورة العنكبوت أن هاتين الآيتين نزلتا فى سعد بن أبى وقاص وأمه ... (مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا أمرا بترك فريضة أو إتيان مكروه تحريما لأن ترك الامتثال لأمر الله والامتثال لأمر غيره إشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق في معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا أمرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع."

(سورة لقمان، ٧/ ٢٥٥، ط: مكتبة رشيدية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك.

 (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق (وإن أمراك أن تخرج من أهلك) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك): بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله."

(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، ١/ ١٣٢، ط: دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603101313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں